سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر
کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
26. باب فِي الاِسْتِغْفَارِ
باب: توبہ و استغفار کا بیان۔
حدیث نمبر: 1529
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَلِيٍّ الْجَنْبِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَالَ: رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے: «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا» ”میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا“ تو جنت اس کے لیے واجب گئی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:4268)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة 31 (1884)، سنن النسائی/الجہاد 18 (3133) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1529 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1529
1529. اردو حاشیہ: شرط یہ ہے کہ قول کے ساتھ ساتھ عمل اور کردار کی تایئد بھی ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1529
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3133
´اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے درجات و مراتب۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوسعید! جو شخص راضی ہو گیا اللہ کے رب ۱؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کر لیا ۲؎ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ۳؎ کا اقرار کر لیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہو گئی ۴؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئیے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3133]
اردو حاشہ:
”بڑے عجیب لگے“ کیونکہ ظاہر ایک آسان چیز پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اگرچہ حقیقتاً یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ رضا کا علم اعمال سے ہوگا۔ اور عمل سے ایمان کا ثبوت مہیا کرنا ہی مشکل کا م ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ”بڑے عمدہ لگے“ کیونکہ مومن کے لیے یہ عظیم خوشخبری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3133
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4879
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو سعید، جو شخص اللہ کے رب ہونے، اسلام کے ضابطہ حیات ہونے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔“ ابو سعید کو یہ بات بہت اچھی لگی، تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے دوبارہ سنائیے، آپﷺ نے ایسے کیا، پھر فرمایا: ”ایک اور خصلت ہے، اس سے بندے کے جنت میں سو درجے بلند کیے جاتے ہیں، دو درجوں کے درمیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4879]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جنت میں تو انسان جہاد کے بغیر بھی چلا جائے گا،
لیکن وہ مراتب و درجات جو انتہائی بلند و بالا اور اشرف ہیں،
ان سے محروم ہو جائے گا اور ان نعمتوں سے محروم رہے گا،
جن کا تصور بھی انسان اس دنیا میں نہیں کر سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4879