صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
18. باب الإِمْدَادِ بِالْمَلاَئِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ:
18. باب: فرشتوں کی مدد بدر کی لڑائی میں اور مباح ہونا لوٹ کا۔
Chapter: The support of the angels during the Battle of Badr, and the permissibility of the spoils
حدیث نمبر: 4588
Save to word اعراب
حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابن المبارك ، عن عكرمة بن عمار ، حدثني سماك الحنفي ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم بدر ح، وحدثنا زهير بن حرب واللفظ له، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني ابو زميل هو سماك الحنفي ، حدثني عبد الله بن عباس ، قال: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: " لما كان يوم بدر نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم الف واصحابه ثلاث مائة وتسعة عشر رجلا، فاستقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم القبلة ثم مد يديه، فجعل يهتف بربه اللهم انجز لي ما وعدتني، اللهم آت ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام لا تعبد في الارض، فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه، فاتاه ابو بكر فاخذ رداءه فالقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه، وقال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، فانزل الله عز وجل إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9 فامده الله بالملائكة، قال ابو زميل: فحدثني ابن عباس، قال: بينما رجل من المسلمين يومئذ يشتد في اثر رجل من المشركين امامه إذ سمع ضربة بالسوط، فوقه وصوت الفارس، يقول: اقدم حيزوم، فنظر إلى المشرك امامه، فخر مستلقيا، فنظر إليه، فإذا هو قد خطم انفه وشق وجهه كضربة السوط، فاخضر ذلك اجمع، فجاء الانصاري فحدث بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: صدقت، ذلك من مدد السماء الثالثة، فقتلوا يومئذ سبعين واسروا سبعين، قال ابو زميل: قال ابن عباس: فلما اسروا الاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي بكر، وعمر: ما ترون في هؤلاء الاسارى؟، فقال ابو بكر: يا نبي الله هم بنو العم والعشيرة ارى ان تاخذ منهم، فدية فتكون لنا قوة على الكفار فعسى الله ان يهديهم للإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟، قلت: لا والله يا رسول الله، ما ارى الذي راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنا فنضرب اعناقهم فتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه وتمكني من فلان نسيبا لعمر فاضرب عنقه، فإن هؤلاء ائمة الكفر وصناديدها، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما قال ابو بكر ولم يهو ما قلت، فلما كان من الغد جئت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر قاعدين يبكيان، قلت: يا رسول الله اخبرني من اي شيء تبكي انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابكي للذي عرض علي اصحابك من اخذهم الفداء لقد عرض علي عذابهم ادنى من هذه الشجرة، شجرة قريبة من نبي الله صلى الله عليه وسلم، وانزل الله عز وجل ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض سورة الانفال آية 67 إلى قوله فكلوا مما غنمتم حلالا طيبا سورة الانفال آية 69 فاحل الله الغنيمة لهم ".حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ح، وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ، فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ، يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ، فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ، فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ، فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِيدُهَا، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى قَوْلِهِ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالا طَيِّبًا سورة الأنفال آية 69 فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ ".
ابوزمیل سماک حنفی نے کہا: مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: جب در کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔" آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: "جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔" پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ ابوزمیل نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: اس دوران میں، اس دن مسلمانوں میں سے ایک شخص اپنے سامنے بھاگتے ہوئے مشرکوں میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنے اوپر سے کوڑا مارنے اور اس کے اوپر سے گھڑ سوار کی آواز سنی، جو کہہ رہا تھا: حیزوم! آگے بڑھ۔ اس نے اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھا تو وہ چت پڑا ہوا تھا، اس نے اس پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان پڑا ہوا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اس کا چہرہ پھٹا ہوا تھا اور وہ پورے کا پورا سبز ہو چکا تھا، وہ انصاری آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: "تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان سے (آئی ہوئی) مدد تھی۔" انہوں (صحابہ) نے اس دن ستر آدمی قتل کیے اور ستر قیدی بنائے۔ ابوزمیل نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب انہوں نے قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: "ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟" تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے بیٹے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، یہ کافروں کے خلاف ہماری قوت کا باعث ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کو اسلام کی راہ پر چلا دے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟" کہا: میں نے عرض کی: نہیں، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپ عقیل پر علی رضی اللہ عنہ کو اختیار دیں وہ اس کی گردن اڑا دیں اور مجھے فلاں۔۔ عمر کے ہم نسب۔۔ پر اختیار دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور بڑے سردار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی اور جو میں نے کہا تھا اسے پسند نہ فرمایا۔ جب اگلا دن ہوا (اور) میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں رو رہے ہیں۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے، آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز پر رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونا آ یا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو بھی میں آپ دونوں کے رونے کی بنا پر رونے کی کوشش کروں گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اس بات پر رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے ان سے فدیہ لینے کے بارے میں میرے سامنے پیش کی تھی، ان کا عذاب مجھے اس درخت سے بھی قریب تر دکھایا گیا"۔۔ وہ درخت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا۔۔ اور اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں: "کسی نبی کے لیے (روا) نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون بہائے۔۔۔" اس فرمان تک۔۔۔ "تو تم اس میں سے کھاؤ جو حلال اور پاکیزہ غنیمتیں تم نے حاصل کی ہیں۔" تو اس طرح اللہ نے ان کے لیے غنیمت کو حلال کر دیا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1763

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاري2915عبد الله بن عباساللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
   صحيح البخاري4875عبد الله بن عباساللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشأ لا تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله ألححت على ربك وهو يثب في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر
   صحيح البخاري3953عبد الله بن عباساللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر
   صحيح البخاري4877عبد الله بن عباسأنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم أبدا فأخذ أبو بكر بيده وقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
   صحيح مسلم4588عبد الله بن عباساللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آت ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه وقال يا نبي الله كفاك مناش
   جامع الترمذي3081عبد الله بن عباساللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آتني ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه من منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه فقال يا نبي الله كفاك من

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4588 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4588  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يَهْتفُ بِرََبِّه:
بلند آواز سے،
اللہ سے دعا کرنے لگے،
تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گریہ و زاری اور دعا کو دیکھ کر مسلمان مطمئن ہو جائیں اور ان کے دل تقویت حاصل کر لیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو انہیں اطمینان ہو گیا کہ اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور اپنا وعدہ جلد پورا فرمائے گا،
اس لیے عرض کیا،
اے اللہ کے نبی! كَفَاكَ منَا شِدَّتكَ:
آپ نے بلند آواز (نشید)
سے جو دعا فرمائی ہے،
وہ کافی ہے،
اس لیے آپ بس کریں،
خُطِمَ أَنفُهُ:
اس کی ناک پر نشان پڑ گیا۔
(2)
صناديد:
صنديد کی جمع ہے،
لیڈر،
سردار۔
(3)
هَوِيَ:
پسند کیا۔
بتاكيت:
میں رونے والی صورت بنا لوں گا،
تاکہ آپ کی موافقت ہو سکے۔
(4)
يُثخِنَ فِي الارض:
زمین میں خون بہائے۔
فوائد ومسائل:
غزوہ بدر 17 رمضان المبارک جمعہ کے دن پیش آیا اور یہ مسلمانوں کی کافروں سے باضابطہ پہلی جنگ تھی،
جس میں ہر اعتبار سے ظاہری وسائل کے لحاظ سے مسلمان کم تر تھے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور ان کے اطمینان قلب کے لیے ایک ہزار فرشتے نازل فرمانے کی بشارت فرمائی،
تاکہ وہ ظاہری وسائل و اسباب میں فائق ہونے سے خوش ہو کر پوری جراءت و بسالت سے جنگ میں حصہ لیں،
وگرنہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے بغیر بھی ان کو فتح یاب کر سکتا تھا،
لیکن اس کی نصرت و مدد اسباب کے پردے میں آتی ہے،
اس لیے ایک فرشتہ کی بجائے،
جو ان کی تباہی کے لیے کافی تھا،
ہزار فرشتے بھیجے اور ان میں سے بعض نے باقاعدہ جنگ میں بھی حصہ لیا ہے،
جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہو رہا ہے،
جمہور کا یہی موقف ہے،
جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور ستر (70)
مشرک قید کر لیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے دو صورتیں پیش کیں،
ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے،
لیکن اس صورت میں آئندہ سال اتنے ہی مسلمان شہید ہوں گے،
ان دو صورتوں میں ایک کا انتخاب دراصل مسلمانوں کا امتحان تھا کہ وہ اپنی رائے سے کس کو اختیار کرتے ہیں،
جیسا کہ ازواج مطہرات کے امتحان و آزمائش کے لیے انہیں دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی دی تھی،
جس کی تفصیل سورہ احزاب کی آیت،
إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔
میں ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقعہ معراج میں دودھ اور شراب اور شہد پیش کیا گیا تھا تو آپ نے صحابہ سے رائے لی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی طبعی نرم دلی اور شفقت کی بناء پر یہ رائے دی کہ یہ قیدی اپنے بھائی بند ہیں،
آپ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں،
اس نرم سلوک اور احسان کی بنا پر ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے اور یہ لوگ اور ان کے اتباع اولاد مسلمان ہو کر ہمارے دست بازو بنیں اور فدیہ کے مال سے ہم اپنی جنگی ضرورتیں پوری کر لیں گے،
عام صحابہ نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طبعی رحم دلی اور شفقت و صلہ رحمی کی خاطر اس رائے کو پسند کیا،
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ یہ قیدی کفر کے امام اور کافروں کے لیڈر ہیں،
ان کو ختم کر دیا جائے تو کفر و شرک کا زور ٹوٹ جائے گا،
تمام مشرکوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو جائے گا اور ہم کفر و شرک اور ان لوگوں سے انتہائی نفرت و بغض کا اظہار کرنے کی خاطر،
اپنے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں اور حضرت سعد بن معاذ نے بھی ان کی تائید کی،
لیکن فدیہ والوں کی رائے پر عمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کو (تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا)
تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو سے تعبیر کیا،
یہ غلطی بظاہر ایسی تھی کہ اس پر مواخذہ ہوتا اور سخت سزا ملتی اور وہ عذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا بھی گیا،
لیکن اس بناء پر یہ عذاب روک دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اجتہادی غلطی پر سزا نہیں دیتا،
آیت میں آمدہ تہدید و عتاب کی بناء پر مسلمان ڈر گئے اور مال غنیمت سے احتراز کرنے لگے،
اس لیے مال غنیمت کے حلال و طیب ہونے کا اعلان کر دیا گیا،
(تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر،
حاشیہ عثمانی میں دیکھئے)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4588   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3081  
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔‏‏‏‏ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3081]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی،
اور فرمایا:
میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے،
تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی(الأنفال: 9) 2؎:
یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3081   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3953  
3953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن اللہ سے عرض کی: اے اللہ! میں تجھے، تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں (اب اس وعدے کو پور کر)۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ ہو (تو پھر کفار کو غالب کر دے)۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! بس یہی کافی ہے۔ اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا، چنانچہ آپ وہاں سے نکلے تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے: عنقریب یہ (مشرکین کی) جماعت شکست خوردہ ہو گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3953]
حدیث حاشیہ:
اللہ پا ک نے جو وعدہ فرمایاتھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔
بدر کے دن اللہ تعالی نے پہلی بار ایک ہزار فرشتوں سے مدد نازل کی۔
پھر بڑھا کر تین ہزار کردئیے پھر پانچ ہزار فرشتوں سے مدد فرمائی۔
اسی لیے آیت کریمہ ﴿أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ (الأنفال 9)
سورہ آل عمران کی آیت کے خلاف نہیں ہے جس میں پانچ ہزار کا ذکرہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3953   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2915  
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ:
:
یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔
وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔
آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔
مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔
چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔
اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔
حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔
آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4877  
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ:
قیامت کی سختیوں اور دوزخ کے عذابوں پر اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4877   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2915  
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اس لیے عرض کیا کہ ان جاں نثاروں کی ہلاکت کے بعد قیامت تک اس زمین پر شرک ہی شرک رہے گا۔
معبود حقیقی کو کوئی ماننے والا نہیں ہو گا۔

امام بخاری ؒ اس س حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زرہ تھی جسے آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر پہنا لہٰذا میدان جنگ میں زرہ پہننا جائز ہے اور ایسا کرنا تو کل کے منافی نہیں۔

زرہ لوہے کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس کے پہننے سے میدان جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے پھر جسم پر نیزے یا برچھے یا تیر کا اثر نہیں ہوتا۔
قدیم زمانے میں دوران جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا آج کل زرہ کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3953  
3953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن اللہ سے عرض کی: اے اللہ! میں تجھے، تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں (اب اس وعدے کو پور کر)۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ ہو (تو پھر کفار کو غالب کر دے)۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! بس یہی کافی ہے۔ اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا، چنانچہ آپ وہاں سے نکلے تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے: عنقریب یہ (مشرکین کی) جماعت شکست خوردہ ہو گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3953]
حدیث حاشیہ:

سورہ قمر کی اس آیت میں ایک واضح پیش گوئی تھی۔
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت مسلمانوں کے ظاہری حالات ایسے دگرگوں تھے کہ اس پیش گوئی کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔
مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تھا۔
ان کامعاشرتی بائیکاٹ ہوچکا تھا۔
قریش کے ظلم وستم سے مجبور ہوکر 83 مسلمان (مردوخواتین)
حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔
ایسے حالات میں اس آیت کا نزول ہوا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے مقام بدر میں اسے حرف بحرف پورا کردیا۔

رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں جب اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کودیکھا کہ وہ تیاری اور نفری میں کفار سے کم ہیں توآپ نے گھاس سے تیار کیے گئے ایک جھونپڑے میں نہایت تضرع اور عاجزی سے دعا مانگی۔
اگرچہ آپ کو اللہ کے وعدے کے مطابق نصرت وتائید کا پورا یقین تھا لیکن آپ کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی پر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو وعدہ پورا کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔
یہ مقام خوف، مقام رجاء کے آگے ہے اور مقام رجاء سے کہیں افضل ہے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ مقام رجاء پر فائز تھے۔
اور بزعم خویش رسول اللہﷺ کو تسلی دے رہے تھے کہ اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا لیکن رسول اللہ ﷺ کا مقام اس سے کہیں آگے تھا کہ آپ کے سامنے اللہ کی عظمت وجلالت اورشان بے نیازی تھے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ مقام خوف پر نظر رکھتے تھے جبکہ ابوبکر ؓ پر مقام رجاء یعنی امید کا غلبہ تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3953   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4875  
4875. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بدر کے دن رسول اللہ ﷺ ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے یوں دعا فرمائی: اے اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کی قسم دیتا ہوں، یا اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد کوئی تیری عبادت کرنے والا نہیں رہے گا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! اب بس کیجیے! آپ نے اپنے رب سے التجا کرنے میں میں حد کر دی ہے۔ آپ اس دن زرہ پہن کر چل پھر رہے تھے۔ جب آپ (خیمے سے) باہر نکلے تو یہ آیت پڑھ رہے تھے: عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4875]
حدیث حاشیہ:

مسلمانوں سے انتقام لینے والے کفارِ قریش خود بدر کے دن اللہ تعالیٰ کے انتقام اور غضب کا شکار ہو گئے۔
سات سال قبل کی گئی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
اس جنگ میں ستر بڑے بڑے کافر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
اس اُمت کے فرعون ابوجہل کو انصار کے دوچھوٹے چھوٹے بچوں نے جہنم واصل کیا اور ستر کی تعداد میں ہی کافربھاگتے بھاگتے گرفتار ہوئے۔

یہ سزا تو انھیں دنیا میں ملی اور جو اصل سزا انھیں قیامت کے دن ملنے والی ہے، وہ اس دنیوی سزا سے زیادہ دہشت ناک ہوگی اوردرد ناک بھی اس سے بڑھ کر ہوگی۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4875   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4877  
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث پیش کی ہیں:
پہلی حدیث میں پیش گوئی کا وقت اور دوسری حدیث میں اس کا مصداق سامنے آنے کا وقت بیان ہوا ہے۔

سرداران قریش کو دنیا و آخرت میں کس قدر ذلت سے دوچار ہونا پڑا اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس (24)
مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی تاریک اور گندے کنویں میں پھینک دیے گئے، پھرآپ اس کے کنارے کھڑے ہوئے اور کفار قریش کے مقتول سرداروں کے نام لے کر انھیں آواز دینے لگے:
اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں!کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟بے شک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا،تو کیا تمہارے رب کاتمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب)
تھا وہ بھی تمھیں پوری طرح مل گیا؟(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3976)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4877   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.