حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبد الملك بن الصباح، قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن ابن ابي موسى، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يدعو بهذا الدعاء: ”رب اغفر لي خطيئتي وجهلي، وإسرافي في امري كله، وما انت اعلم به مني، اللهم اغفر لي خطئي كله، وعمدي وجهلي وهزلي، وكل ذلك عندي. اللهم اغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، انت المقدم وانت المؤخر، وانت على كل شيء قدير.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: ”رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَئِي كُلَّهُ، وَعَمْدِي وَجَهْلِي وَهَزْلِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي. اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے میرے پروردگار! میری خطا، جہالت اور ہر کام میں حد سے آگے بڑھ جانے کو معاف فرما، اور وہ سب کچھ معاف فرما جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! میرے جان بوجھ کر کیے ہوئے، جہالت اور مذاق میں کیے ہوئے تمام گناہ معاف فرما۔ اور یہ سب گناہ مجھ سے سرزد ہوئے۔ اے اللہ! میرے اگلے پچھلے گناہ، اور پوشیدہ اور ظاہر گناہ سب معاف فرما دے۔ تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6398 و مسلم: 2719»
حدثنا ابن المثنى، قال: حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، قال: حدثنا إسرائيل، قال: حدثنا ابو إسحاق، عن ابي بكر بن ابي موسى، عن ابي موسى الاشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يدعو: ”اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في امري، وما انت اعلم به مني، اللهم اغفر لي هزلي وجدي، وخطئي وعمدي، وكل ذلك عندي.“حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي وَجَدِّي، وَخَطَئِي وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي.“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! میرے گناہ، میری جہالتیں، اور میرے کاموں میں حد سے بڑھ جانے کو معاف فرما۔ اور میرا ہر وہ گناہ معاف فرما جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! میرے مذاق اور سنجیدگی میں کیے ہوئے گناہ، نیز میری خطائیں اور جان بوجھ کر کیے ہوئے گناہ معاف فرما اور یہ سب گناہ میں نے کیے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6399 و مسلم: 2719»
حدثنا ابو عاصم، عن حيوة، قال: حدثنا عقبة بن مسلم، سمع ابا عبد الرحمن الحبلي، عن الصنابحي، عن معاذ بن جبل، قال: اخذ بيدي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”يا معاذ“، قلت: لبيك، قال: ”إني احبك“، قلت: وانا والله احبك، قال: ”الا اعلمك كلمات تقولها في دبر كل صلاتك؟“ قلت: نعم، قال: ”قل: اللهم اعني على ذكرك، وشكرك، وحسن عبادتك.“حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حَيْوَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: أَخَذَ بِيَدِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”يَا مُعَاذُ“، قُلْتُ: لَبَّيْكَ، قَالَ: ”إِنِّي أُحِبُّكَ“، قُلْتُ: وَأَنَا وَاللَّهِ أُحِبُّكَ، قَالَ: ”أَلا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ تَقُولُهَا فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاتِكَ؟“ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ”قُلِ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.“
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”اے معاذ“ میں نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔“ میں نے عرض کیا: میں بھی اللہ کی قسم آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسے كلمات نہ سکھاؤں جو تم ہر نماز کے بعد پڑھا کرو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پڑھا کرو: اے اللہ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں اور شکر بجا لاؤں اور تیری اچھے طریقے سے عبادت کروں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الوتر: 1522 و النسائي: 1303»
حدثنا مسدد وخليفة، قالا: حدثنا بشر بن المفضل، قال: حدثنا الجريري، عن ابي الورد، عن ابي محمد الحضرمي، عن ابي ايوب الانصاري، قال: قال رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم: الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من صاحب الكلمة؟“ فسكت، وراى انه هجم من النبي صلى الله عليه وسلم على شيء كرهه، فقال: ”من هو؟ فلم يقل إلا صوابا“، فقال رجل: انا، ارجو بها الخير، فقال: ”والذي نفسي بيده، رايت ثلاثة عشر ملكا يبتدرون ايهم يرفعها إلى الله عز وجل.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَخَلِيفَةُ، قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ صَاحِبُ الْكَلِمَةِ؟“ فَسَكَتَ، وَرَأَى أَنَّهُ هَجَمَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ كَرِهَهُ، فَقَالَ: ”مَنْ هُوَ؟ فَلَمْ يَقُلْ إِلا صَوَابًا“، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، أَرْجُو بِهَا الْخَيْرَ، فَقَالَ: ”وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، رَأَيْتُ ثَلاثَةَ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَ أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.“
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے (نماز میں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا: سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ایسی تعریف جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کلمات کس صاحب نے کہے ہیں؟“ وہ آدمی خاموش رہا اور اس نے سمجھا کہ وہ اچانک کوئی ایسی بات کہہ بیٹھا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا: ”وہ کون ہے: اس نے ٹھیک بات ہی کہی ہے۔“ اس آدمی نے کہا: میں نے کہی ہے اور ارادہ بھی اچھا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے تیرہ فرشتوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون ان میں سے یہ کلمات الله عزوجل کی بارگاہ میں لے جائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره إلا العدد: أخرجه الطبراني فى الكبير: 184/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 4383 - المشكاة: 992، التحقيق الثاني»
حدثنا ابو النعمان، قال: حدثنا سعيد بن زيد، قال: حدثنا عبد العزيز بن صهيب، قال: حدثني انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يدخل الخلاء، قال: ”اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث.“حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسٌ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ، قَالَ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! میں خبیث جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الوضوء: 142 و مسلم: 375 و أبوداؤد: 4 و الترمذي: 6 و النسائي: 19 و ابن ماجه: 298»
حدثنا مالك بن إسماعيل، قال: حدثنا إسرائيل، عن يوسف بن ابي بردة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج من الخلاء، قال: ”غفرانك.“حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلاءِ، قَالَ: ”غُفْرَانَكَ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء سے نکلتے تو پڑھتے: ”اے اللہ! میں تجھ سے مغفرت کا سوال کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطهارة، باب ما يقول الرجل إذا خرج من الخلاء: 30 و الترمذي: 7 و النسائي فى الكبرىٰ: 9824 و ابن ماجه: 300»
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا بكر بن سليم الصواف، قال: حدثني حميد بن زياد الخراط، عن كريب مولى ابن عباس، قال: حدثنا ابن عباس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعلمنا هذا الدعاء كما يعلمنا السورة من القرآن: ”اعوذ بك من عذاب جهنم، واعوذ بك من عذاب القبر، واعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، واعوذ بك من فتنة المحيا والممات، واعوذ بك من فتنة القبر.“حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمٍ الصَّوَّافُ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ الْخَرَّاطُ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا هَذَا الدُّعَاءَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ: ”أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا اس طرح سکھایا کرتے تھے جس طرح قرآن پاک کی سورت سکھاتے: ”اے اللہ! میں تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں، مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، موت اور زندگی کے فتنے سے اور قبر کے فتنے سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب المساجد: 590 و أبوداؤد: 984 و الترمذي: 3494 و النسائي: 2063 وابن ماجه: 3840»
حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا ابن مهدي، عن سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن كريب، عن ابن عباس، قال: بت عند ميمونة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فاتى حاجته، فغسل وجهه ويديه ثم نام، ثم قام فاتى القربة فاطلق شناقها، ثم توضا وضوءا بين وضوءين، لم يكثر وقد ابلغ، فصلى، فقمت فتمطيت كراهية ان يرى اني كنت ابقيه، فتوضات، فقام يصلي، فقمت عند يساره، فاخذ باذني فادارني عن يمينه، فتتامت صلاته من الليل ثلاث عشرة ركعة، ثم اضطجع فنام حتى نفخ، وكان إذا نام نفخ، فآذنه بلال بالصلاة، فصلى ولم يتوضا، وكان في دعائه: ”اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وامامي نورا، وخلفي نورا، واعظم لي نورا“، قال كريب: وسبع في التابوت، فلقيت رجلا من ولد العباس، فحدثني بهن، فذكر: عصبي، ولحمي، ودمي، وشعري، وبشري، وذكر خصلتين.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى حَاجَتَهُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ وُضُوءَيْنِ، لَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ، فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى أَنِّي كُنْتُ أَبْقِيهِ، فَتَوَضَّأْتُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عِنْدَ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَتَامَّتْ صَلاتُهُ مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، فَآذَنَهُ بِلالٌ بِالصَّلاةِ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ فِي دُعَائِهِ: ”اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا“، قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْع فِي التَّابُوتِ، فَلَقِيتُ رَجُلا مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ، فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ، فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعْرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ خَصْلَتَيْنِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری تو رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور قضائے حاجت، یعنی پیشاب کیا، پھر ہاتھ اور چہرہ دھو کر سو گئے۔ پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس تشریف لائے۔ اس کا تسمہ کھولا اور درمیانہ سا وضو کیا۔ زیادہ پانی نہ بہایا لیکن اچھی طرح مکمل وضو کیا اور نماز شروع کر دی۔ میں اٹھا اور انگڑائی لی اس ڈر سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر یہ خیال نہ کریں کہ جاگ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے وضو کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دائیں جانب کر لیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رات کی نماز تیرہ رکعات پوری فرمائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی لیکن وضو نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں یہ کلمات بھی تھے: ”اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میری دائیں جانب نور کر دے، اور میری بائیں جانب نور کر دے، میرے اوپر، نیچے، اور آگے پیچھے نور کر دے، اور میرے لیے بڑا نور کر دے۔“ کریب نے کہا کہ سات چیزیں (میرے پاس) تابوت میں (لکھی ہوئی موجود) ہیں۔ مجھے یاد نہیں۔ پھر میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کو ملا تو انہوں نے مجھے وہ چیز بتائیں۔ وہ یہ تھیں: میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں اور میری جلد میں بھی نور کر دے اور مزید دو چیز بھی ذکر کیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6316 و مسلم: 763 و النسائي: 1121 و أبوداؤد: 1353»
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني عبد العزيز بن محمد، عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن، عن يحيى بن عباد ابي هبيرة، عن سعيد بن جبير، عن عبد الله بن عباس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل، فصلى فقضى صلاته، يثني على الله بما هو اهله، ثم يكون في آخر كلامه: ”اللهم اجعل لي نورا في قلبي، واجعل لي نورا في سمعي، واجعل لي نورا في بصري، واجعل لي نورا عن يميني، ونورا عن شمالي، واجعل لي نورا من بين يدي، ونورا من خلفي، وزدني نورا، وزدني نورا، وزدني نورا.“حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ أَبِي هُبَيْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّى فَقَضَى صَلاتَهُ، يُثْنِي عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ يَكُونُ فِي آخِرِ كَلامِهِ: ”اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَلْبِي، وَاجْعَلْ لِي نُورًا فِي سَمْعِي، وَاجْعَلْ لِي نُورًا فِي بَصَرِي، وَاجْعَلْ لِي نُورًا عَنْ يَمِينِي، وَنُورًا عَنْ شِمَالِي، وَاجْعَلْ لِي نُورًا مِنْ بَيْنَ يَدَيَّ، وَنُورًا مِنْ خَلْفِي، وَزِدْنِي نُورًا، وَزِدْنِي نُورًا، وَزِدْنِي نُورًا.“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے تو نماز پوری کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرتے، ایسی ثنا جو اس کی ذات کے لائق ہے، پھر آخر میں یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! میرے لیے میرے دل میں نور پیدا کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میری آنکھوں میں نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، اور میرے لیے نور زیادہ کر دے، میرے لیے نور زیادہ کر دے، میرے نور میں اضافہ فرما۔“
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابي الزبير، عن طاوس اليماني، عن عبد الله بن عباس: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة من جوف الليل، قال: ”اللهم لك الحمد، انت نور السماوات والارض ومن فيهن، ولك الحمد، انت قيام السماوات والارض، ولك الحمد انت رب السماوات والارض ومن فيهن، انت الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك الحق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق، اللهم لك اسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك انبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، انت إلهي، لا إله إلا انت.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، قَالَ: ”اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ الْحَقُّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ.“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آدھی رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھے: ” «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ ......» اے اللہ! تیرے لیے ہی حمد ہے، تو ہی آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان سب کا نور ہے، اور تیرے لیے تمام تعریفیں ہیں، تو ہی آسمان و زمین کو قائم رکھنے والا ہے۔ تیرے لیے ہی سب تعریف ہے، تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کا رب ہے۔ تو حق ہے۔ تیرا وعده حق ہے۔ تیری ملاقات حق ہے۔ جنت حق ہے۔ جہنم حق ہے اور قیامت برحق ہے۔ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر بھروسا کیا۔ میں نے تیری طرف رجوع کیا۔ تیری طاقت سے میں نے دشمنوں سے جھگڑا کیا اور تجھ ہی کو حاکم بنایا، لہٰذا تو میرے اگلے پچھلے اور پوشیده و علانیہ تمام گناہ معاف فرما۔ تو ہی میرا الٰہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التهجد: 1120 و مسلم: 769 و أبوداؤد: 771 و الترمذي: 3418 و النسائي: 1619 و ابن ماجه: 1355»
حدثنا الوليد بن صالح، قال: حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن زيد بن ابي انيسة، عن يونس بن خباب، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابن عباس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو: ”اللهم إني اسالك العفو والعافية في الدنيا والآخرة، اللهم إني اسالك العافية في ديني واهلي، واستر عورتي، وآمن روعتي، واحفظني من بين يدي، ومن خلفي، وعن يميني، وعن يساري، ومن فوقي، واعوذ بك ان اغتال من تحتي.“حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَأَهْلِي، وَاسْتُرْ عَوْرَتِي، وَآمِنْ رَوْعَتِي، وَاحْفَظْنِي مِنْ بَيْنَ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ يَسَارِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دعا فرماتے تھے: ”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں اپنے دین اور اہل و عیال میں، اور میرے عیبوں کو چھپا دے۔ مجھ کو خوف سے امن عطا فرما، اور آگے پیچھے، دائیں بائیں، اور اوپر سے میری حفاظت فرما۔ اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ نیچے سے پکڑا جاؤں، یعنی دھنسا دیا جاؤں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطبراني فى الدعاء: 1297 و ابن حبان: 951 - انظر صحيح الكلم الطيب: 27 و أبوداؤد: 5074 و ابن ماجه: 3871، من حديث ابن عمر»
حدثنا علي، قال: حدثنا مروان بن معاوية، قال: حدثنا عبد الواحد بن ايمن، قال: حدثنا عبيد بن رفاعة الزرقي، عن ابيه، قال: لما كان يوم احد وانكفا المشركون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”استووا حتى اثني على ربي عز وجل“، فصاروا خلفه صفوفا، فقال: ”اللهم لك الحمد كله، اللهم لا قابض لما بسطت، ولا مقرب لما باعدت، ولا مباعد لما قربت، ولا معطي لما منعت، ولا مانع لما اعطيت، اللهم ابسط علينا من بركاتك ورحمتك وفضلك ورزقك، اللهم إني اسالك النعيم المقيم الذي لا يحول ولا يزول، اللهم إني اسالك النعيم يوم العيلة، والامن يوم الحرب، اللهم عائذا بك من سوء ما اعطيتنا، وشر ما منعت منا، اللهم حبب إلينا الإيمان وزينه في قلوبنا، وكره إلينا الكفر والفسوق والعصيان، واجعلنا من الراشدين، اللهم توفنا مسلمين، واحينا مسلمين، والحقنا بالصالحين، غير خزايا ولا مفتونين، اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك، ويكذبون رسلك، واجعل عليهم رجزك وعذابك، اللهم قاتل الكفرة الذين اوتوا الكتاب، إله الحق“، قال علي: وسمعته من محمد بن بشر، واسنده، ولا اجيء به.حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَانْكَفَأَ الْمُشْرِكُونَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اسْتَوُوا حَتَّى أُثْنِيَ عَلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ“، فَصَارُوا خَلْفَهُ صُفُوفًا، فَقَالَ: ”اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لا يَحُولُ وَلا يَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالأَمْنَ يَوْمَ الْحَرْبِ، اللَّهُمَّ عَائِذًا بِكَ مِنْ سُوءِ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَ مِنَّا، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الإِيمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ، غَيْرَ خَزَايَا وَلا مَفْتُونِينَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَيُكَذِّبُونَ رُسَلَكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ، إِلَهَ الْحَقِّ“، قَالَ عَلِيٌّ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ، وَأَسْنَدَهُ، وَلا أَجِيءُ بِهِ.
سیدنا رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب احد کی لڑائی کا دن تھا اور مشرکین منتشر ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برابر ہو جاؤ تاکہ میں اپنے رب کی ثنا بیان کروں۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں بنا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کرنی شروع کی: ”اے اللہ! تمام تعریف تیری ہی ہے۔ اے اللہ! جس کو تو وسعت دے اس پر کوئی تنگی کرنے والا نہیں، اور جسے تو دور کر دے اسے کوئی قریب کرنے والا نہیں، اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں۔ اس کو کوئی دینے والا نہیں جس کو تو نہ دے، اور جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمت، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے قائم رہنے والی ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو نہ منتقل ہوں، اور نہ ختم ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے فقر و محتاجی کے دن نعمتوں کا سوال کرتا ہوں، اور خوف کے روز امن کا۔ اے اللہ! جو کچھ تو نے ہمیں دیا ہے میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور جو تو نے ہم سے روک لیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنا دے، اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے۔ کفر، فسق اور نافرمانی کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنا دے، اور ہمیں ہدایت والوں میں سے بنا دے۔ اے اللہ! ہم کو مسلمان ہونے کی حالت میں فوت کرنا، اور مسلمان ہی زندہ رکھنا، اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا دے۔ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں ڈالے گئے ہوں۔ اے اللہ! کافروں پر لعنت فرما، وہ جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں۔ ان پر سخت مصیبت اور عذاب نازل فرما۔ اے اللہ! ان کافروں پر لعنت کر جنہیں کتاب دی گئی (اور انہوں نے اسے جھٹلایا)، اے معبود برحق۔“ علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث محمد بن بشر سے بھی سنی اور انہوں نے اس کی سند بھی بیان کی لیکن میں اس سند کو (اچھی طرح یاد نہ ہونے کی وجہ سے) بیان نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 15492 و النسائي فى الكبرىٰ: 10370 و ابن أبى عاصم فى السنة: 381 و الطبراني فى الدعاء: 1075»