حدثنا عبيد بن يعيش، قال: حدثنا يونس، عن ابن إسحاق، عن نافع، عن ابن عمر، قال: إني لادعو في كل شيء من امري حتى ان يفسح الله في مشي دابتي، حتى ارى من ذلك ما يسرني.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: إِنِّي لأَدْعُو فِي كُلِّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِي حَتَّى أَنْ يُفْسِحَ اللَّهُ فِي مَشْيِ دَابَّتِي، حَتَّى أَرَى مِنْ ذَلِكَ مَا يَسُرُّنِي.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں حتی کہ اس میں بھی کہ وہ میری سواری کے چلنے میں وسعت پیدا فرما دے۔ یہاں تک کہ میں اس میں وہ چیز دیکھتا ہوں جو مجھے خوش کر دیتی ہے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: اس كي سند ميں محمد بن اسحاق مدلس هے اور ”عن“ كے ساته بيان كرتا هے.»
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا عمرو بن عبد الله ابو معاوية، قال: حدثنا مهاجر ابو الحسن، عن عمرو بن ميمون الاودي، عن عمر، انه كان فيما يدعو: اللهم توفني مع الابرار، ولا تخلفني في الاشرار، والحقني بالاخيار.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُهَاجِرٌ أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الأَوْدِيِّ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ فِيمَا يَدْعُو: اللَّهُمَّ تَوَفَّنِي مَعَ الأَبْرَارِ، وَلا تُخَلِّفْنِي فِي الأَشْرَارِ، وَأَلْحِقْنِي بِالأَخْيَارِ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنی دعا میں یوں کہا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ فوت فرمانا اور مجھے برے لوگوں کے ساتھ پیچھے نہ چھوڑ دینا اور مجھے اچھے لوگوں کے ساتھ ملانا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري فى تاريخه الكبير: 349/6 و ابن سعد فى الطبقات: 331/3»
حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: حدثنا شقيق، قال كان عبد الله، يكثر ان يدعو بهؤلاء الدعوات: ربنا اصلح بيننا، واهدنا سبيل الإسلام، ونجنا من الظلمات إلى النور، واصرف عنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن، وبارك لنا في اسماعنا وابصارنا وقلوبنا وازواجنا وذرياتنا، وتب علينا إنك انت التواب الرحيم، واجعلنا شاكرين لنعمتك، مثنين بها، قائلين بها، واتممها علينا.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ، يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَ بِهَؤُلاءِ الدَّعَوَاتِ: رَبَّنَا أَصْلِحْ بَيْنَنَا، وَاهْدِنَا سَبِيلَ الإِسْلامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَاصْرِفْ عَنَّا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهْرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِينَ بِهَا، قَائِلِينَ بِهَا، وَأَتْمِمْهَا عَلَيْنَا.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے: ”اے اللہ! ہمارے معاملات کی اصلاح فرما، اور ہمیں راہ اسلام کی ہدایت دے، اور ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نجات عطا فرما، اور ہمیں ظاہر و باطن ہر قسم کی بےحیائی اور بری باتوں سے دور رکھ، اور ہمارے لیے ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں، ہمارے دلوں اور ہمارے بیوی بچوں میں برکت عطا فرما۔ اور ہماری توبہ قبول فرما، یقیناً تو ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، اور ان کا اقرار کرنے والا بنا دے، اور ہم پر اپنی نعمت کو پورا فرما۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 67/6 و الطبراني فى الدعاء: 1430 و رواه أبوداؤد عنه مرفوعًا: 969 - انظر ضعيف أبى داؤد: 172»
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، قال: كان انس، إذا دعا لاخيه، يقول: جعل الله عليه صلاة قوم إبرار ليسوا بظلمة ولا فجار، يقومون الليل، ويصومون النهار.حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: كَانَ أَنَسٌ، إِذَا دَعَا لأَخِيهِ، يَقُولُ: جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ صَلاةَ قَوْمٍ إِبْرَارٍ لَيْسُوا بِظَلَمَةٍ وَلا فُجَّارٍ، يَقُومُونَ اللَّيْلَ، وَيَصُومُونَ النَّهَارَ.
ثابت رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب اپنے کسی بھائی کے لیے دعا کرتے تو یوں کہتے: ”اللہ اسے نیک لوگوں کی دعاؤں کا حق دار بنائے جو نہ ظالم ہوں اور نہ بدکار، جو راتوں کو قیام کرتے ہوں اور دن کو روزہ رکھتے ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح موقوفًا وقد صح مرفوعًا: الصحيحة: 1810 - أخرجه ابن السني فى عمل اليوم: 202 و أبونعيم فى الحلية: 34/2 و البزار: 137/13 و رواه مرفوعًا عبد بن حميد: 1360»
حدثنا ابن نمير، قال: حدثنا ابن اليمان، قال: حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، قال: سمعت عمرو بن حريث، يقول: ذهبت بي امي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فمسح على راسي، ودعا لي بالرزق.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي أُمِّي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِي، وَدَعَا لِي بِالرِّزْقِ.
سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میری ماں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے رزق کی دعا فرمائی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري فى الكبير: 190/3 و أبويعلى: 1452 و ابن عاصم فى الآحاد و المثاني: 717 - انظر الصحيحة: 2943 و العلل لابن أبى حاتم: 353/6»
حدثنا موسى، قال: حدثنا عمر بن عبد الله الرومي، قال: اخبرني ابي، عن انس بن مالك، قال: قيل له: إن إخوانك اتوك من البصرة وهو يومئذ بالزاوية، لتدعو الله لهم، قال اللهم اغفر لنا، وارحمنا، وآتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار، فاستزادوه، فقال مثلها، فقال: إن اوتيتم هذا، فقد اوتيتم خير الدنيا والآخرة.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: إِنَّ إِخْوَانَكَ أَتَوْكَ مِنَ الْبَصْرَةِ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ بِالزَّاوِيَةِ، لِتَدْعُوَ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا، وَارْحَمْنَا، وَآتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، فَاسْتَزَادُوهُ، فَقَالَ مِثْلَهَا، فَقَالَ: إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا، فَقَدْ أُوتِيتُمْ خَيْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ آپ کے کچھ بھائی بصرہ سے آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ آپ ان کے لیے دعا کریں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ان دنوں زاویہ مقام پر تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی: اے اللہ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ انہوں نے مزید دعا کی درخواست کی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے پھر اسی طرح دعا کی اور فرمایا: اگر تمہیں یہ مل گیا تو تمہیں دنیا و آخرت کی خیر مل گئی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: رواه ابن حبان: 145/2، 934، من طريق أبى يعلى و هذا فى مسنده: 125/6، 3397، بسند صحيح عن ثابت و ابن أبى شيبة: 77/6»
حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا ابو ربيعة سنان، قال: حدثنا انس بن مالك، قال: اخذ النبي صلى الله عليه وسلم غصنا فنفضه فلم ينتفض، ثم نفضه فلم ينتفض، ثم نفضه فانتفض، قال: ”إن سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، ينفضن الخطايا كما تنفض الشجرة ورقها.“حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَبِيعَةَ سِنَانٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُصْنًا فَنَفَضَهُ فَلَمْ يَنْتَفِضْ، ثُمَّ نَفَضَهُ فَلَمْ يَنْتَفِضْ، ثُمَّ نَفَضَهُ فَانْتَفَضَ، قَالَ: ”إِنَّ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدَ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، يَنْفُضْنَ الْخَطَايَا كَمَا تَنْفُضُ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹہنی پکڑی اور اسے جھاڑا تو اس کے پتے نہ جھڑے، پھر اسے جھاڑا تو بھی اس کے پتے نہ جھڑے، پھر تیسری بار جھاڑا تو جھڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ، الحمد للہ اور لا الہ الا اللہ خطاؤں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوات: 3533 - انظر الصحيحة: 3168»
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سلمة، قال: سمعت انسا، يقول: اتت امراة النبي صلى الله عليه وسلم تشكو إليه الحاجة، او بعض الحاجة، فقال: ”الا ادلك على خير من ذلك؟ تهللين الله ثلاثين عند منامك، وتسبحين ثلاثا وثلاثين، وتحمدين اربعا وثلاثين، فتلك مائة خير من الدنيا وما فيها.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو إِلَيْهِ الْحَاجَةَ، أَوْ بَعْضَ الْحَاجَةِ، فَقَالَ: ”أَلا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ تُهَلِّلِينَ اللَّهَ ثَلاثِينَ عِنْدَ مَنَامِكِ، وَتُسَبِّحِينَ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَتَحْمَدِينَ أَرْبَعًا وَثَلاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی ضروریات کا شکوہ کیا، یا کسی ضرورت کے بارے میں شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تیری رہنمائی اس سے بہتر کی طرف نہ کروں؟ تم سوتے وقت تینتیس مرتبہ «لا اله الا الله»، تینتیس مرتبہ «سبحان الله» اور چونتیس مرتبہ «الحمد لله» پڑھا کرو۔ یہ سو کلمات دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى شيبة: 29826 - اس كي سند ميں سلمه بن وردان راوي ضعيف هے.»
وقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من هلل مائة، وسبح مائة، وكبر مائة، خير له من عشر رقاب يعتقها، وسبع بدنات ينحرها“.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ هَلَّلَ مِائَةً، وَسَبَّحَ مِائَةً، وَكَبَّرَ مِائَةً، خَيْرٌ لَهُ مِنْ عَشْرِ رِقَابٍ يُعْتِقُهَا، وَسَبْعِ بَدَنَاتٍ يَنْحَرُهَا“.
سابقہ سند کے ساتھ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سو مرتبہ «لا اله الا الله» کہا، سو مرتبہ «سبحان الله» کہا اور سو مرتبہ «الله اكبر» کہا، یہ اس کے لیے دس گردنوں کو آزاد کرنے سے بہتر ہے۔ اور سات موٹے تازے اونٹ قربان کرنے سے بہتر ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن ماسي فى فوائده: 85/1 - انظر المطالب العاليه: 125/14 و انظر ضعيف الترغيب: 940»
فاتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، اي الدعاء افضل؟ قال: ”سل الله العفو والعافية في الدنيا والآخرة“، ثم اتاه الغد فقال: يا نبي الله، اي الدعاء افضل؟ قال: ”سل الله العفو والعافية في الدنيا والآخرة، فإذا اعطيت العافية في الدنيا والآخرة فقد افلحت“.فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ”سَلِ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ“، ثُمَّ أَتَاهُ الْغَدَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ”سَلِ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ“.
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا سب سے زیادہ فضیلت والی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں معافی اور عافیت مانگو۔“ پھر وہ اگلے دن آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کون سی دعا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ سے درگزر اور عافیت طلب کرو۔ اگر تمہیں دنیا و آخرت میں عافیت مل گئی تو یقیناً تو فلاح پا گیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوات: 3512 و ابن ماجه: 3848 - انظر الصحيحة: 1523»
حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن الجريري، عن ابي عبد الله الجسري عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”احب الكلام إلى الله: سبحان الله لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لا حول ولا قوة إلا بالله، سبحان الله وبحمده.“حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”أَحَبُّ الْكَلامِ إِلَى اللَّهِ: سُبْحَانَ اللَّهِ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب کلام یہ ہے: «سبحان الله ...» اللہ تعالیٰ پاک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے، اسی کے لیے ہر قسم کی تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک ہے، اور اسی کی تعریف کے ساتھ (ہم مشغول ہیں)۔“
حدثنا الصلت بن محمد، قال: حدثنا مهدي بن ميمون، عن الجريري، عن جبر بن حبيب، عن ام كلثوم ابنة ابي بكر، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وانا اصلي، وله حاجة، فابطات عليه، قال: ”يا عائشة، عليك بجمل الدعاء وجوامعه“، فلما انصرفت، قلت: يا رسول الله، وما جمل الدعاء وجوامعه؟ قال: ”قولي: اللهم إني اسالك من الخير كله، عاجله وآجله، ما علمت منه وما لم اعلم، واعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله، ما علمت منه وما لم اعلم، واسالك الجنة وما قرب إليها من قول او عمل، واعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول او عمل، واسالك مما سالك به محمد صلى الله عليه وسلم، واعوذ بك مما تعوذ منه محمد صلى الله عليه وسلم، وما قضيت لي من قضاء فاجعل عاقبته رشدا.“حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ جَبْرِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أُمِّ كُلْثُومِ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، وَلَهُ حَاجَةٌ، فَأَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: ”يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِجُمَلِ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعِهِ“، فَلَمَّا انْصَرَفْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جُمَلُ الدُّعَاءِ وَجَوَامِعُهُ؟ قَالَ: ”قُولِي: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ، عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمُ، وَأَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَسْأَلُكَ مِمَّا سَأَلَكَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِمَّا تَعَوَّذَ مِنْهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا قَضَيْتَ لِي مِنْ قَضَاءٍ فَاجْعَلْ عَاقِبَتَهُ رُشْدًا.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کسی کام کی غرض سے تشریف لائے جبکہ میں نماز میں مصروف تھی۔ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! جامع قسم کی دعا کیا کرو۔“ جب میں نے نماز ختم کی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جامع قسم کی دعا کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو: اے اللہ میں تجھ سے ہر جلد یا بہ دیر آنے والی بھلائی کا سوال کرتی ہوں۔ جس کو میں جانتی ہوں اور جس کو نہیں جانتی۔ اور میں تجھ سے دنیا و آخرت کے شر سے پناہ چاہتی ہوں، جس کا مجھے علم ہو اور جس کا علم نہ ہو۔ اور میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کی سوالی ہوں۔ اور میں آگ سے تیری پناہ مانگتی اور ہر اس بات اور عمل سے بھی پناہ مانگتی ہوں جو مجھے اس کے قریب کرے۔ اور میں اس چیز کا سوال کرتی ہوں جس کا سوال محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتی ہوں جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی، اور تو نے جو فیصلہ بھی میرے لیے کیا اس کا انجام اچھا کر دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه: 3846 - انظر الصحيحة: 1542»