حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا سويد بن حجير، قال: سمعت سليم بن عامر، عن اوسط بن إسماعيل، قال: سمعت ابا بكر الصديق رضي الله عنه بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قام النبي صلى الله عليه وسلم عام اول مقامي هذا - ثم بكى ابو بكر - ثم قال: ”عليكم بالصدق، فإنه مع البر، وهما في الجنة، وإياكم والكذب، فإنه مع الفجور، وهما في النار، وسلوا الله المعافاة، فإنه لم يؤت بعد اليقين خير من المعافاة، ولا تقاطعوا، ولا تدابروا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخوانا.“حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوَّلَ مَقَامِي هَذَا - ثُمَّ بَكَى أَبُو بَكْرٍ - ثُمَّ قَالَ: ”عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ، وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ، وَهُمَا فِي النَّارِ، وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ، فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرٌ مِنَ الْمُعَافَاةِ، وَلا تَقَاطَعُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا.“
اوسط بن اسماعیل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے پہلے سال اس جگہ پر کھڑے ہوئے جس جگہ میں کھڑا ہوں، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے، پھر فرمایا: ”سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہے، اور وہ دونوں (سچائی اور نیکی) جنت میں لے جانے والی ہیں۔ اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور کے ساتھ ہے، اور یہ دونوں آگ میں لے جانے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، کیونکہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ آپس میں قطع تعلق نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پشت نہ پھیرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض رکھو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“
حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن الجريري، عن ابي الورد، عن اللجلاج، عن معاذ قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم على رجل يقول: اللهم إني اسالك تمام النعمة، قال: ”هل تدري ما تمام النعمة؟“ قال: ”تمام النعمة دخول الجنة، والفوز من النار“، ثم مر على رجل يقول: اللهم إني اسالك الصبر، قال: ”قد سالت ربك البلاء، فسله العافية“، ومر على رجل يقول: يا ذا الجلال والإكرام، قال: ”سل“.حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ اللَّجْلاجِ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ، قَالَ: ”هَلْ تَدْرِي مَا تَمَامُ النِّعْمَةِ؟“ قَالَ: ”تَمَامُ النِّعْمَةِ دُخُولُ الْجَنَّةِ، وَالْفَوْزُ مِنَ النَّارِ“، ثُمَّ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ، قَالَ: ”قَدْ سَأَلْتَ رَبَّكَ الْبَلاءَ، فَسَلْهُ الْعَافِيَةَ“، وَمَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: يَا ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ، قَالَ: ”سَلْ“.
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے پوری نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم جانتے ہو پوری نعمت کیا ہے؟“ اس نے کہا: پوری نعمت یہ ہے کہ بندہ جنت میں داخل ہو جائے اور دوزخ سے بچ جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کہہ رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے صبر کا سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنے رب سے مصیبت کا سوال کیا ہے، اس کے بجائے عافیت کا سوال کرو۔“ ایک اور شخص کے پاس سے گزرے جو کہہ رہا تھا: اے بزرگی و اکرام والے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے کچھ مانگو۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوات: 3527 - انظر الضعيفة: 3416»
حدثنا فروة، قال: حدثنا عبيدة، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن العباس بن عبد المطلب، قلت: يا رسول الله، علمني شيئا اسال الله به، فقال: ”يا عباس، سل الله العافية“، ثم مكثت ثلاثا، ثم جئت، فقلت: علمني شيئا اسال الله به يا رسول الله، فقال: ”يا عباس، يا عم رسول الله، سل الله العافية في الدنيا والآخرة.“حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُ اللَّهَ بِهِ، فَقَالَ: ”يَا عَبَّاسُ، سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ“، ثُمَّ مَكَثْتُ ثَلاثًا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُ اللَّهَ بِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: ”يَا عَبَّاسُ، يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ، سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.“
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔“ کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی دعا سکھائیں جس کے ذریعے سے میں مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! الله تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوت: 3514 - انظر الصحيحة: 1523»