زکوٰۃ کے بیان میں ज़कात के बारे में سوال سے بچنا بڑے ثواب اور فائدے کی بات ہے۔ “ मांगने से बचना बड़े सवाब और लाभ की बात है ”
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں دے دیا یہاں تک کہ جس قدر مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا وہ سب ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جب مال ہو گا تو میں اسے تم لوگوں سے بچا کر نہ رکھوں گا مگر (یاد رکھو کہ) جو شخص سوال کرنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ اس کو (فقر اور حاجت سے) بچائے گا اور جو شخص بےپرواہی ظاہر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا اور جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر بنا دے گا اور (دیکھو) کسی شخص کو کوئی نعمت صبر سے زیادہ عمدہ اور وسیع نہیں دی گئی (لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے رسی لے کر لکڑیاں توڑے اور ان کو اپنی پیٹھ پر لاد کر فروخت کرے، اس بات سے بہتر ہے کہ کسی شخص کے پاس جائے اور اس سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دے یا نہ دے۔“
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے اپنی رسی لے کر اور لکڑی کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور اس کو فروخت کرے اور اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کی آبرو قائم رکھے تو یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دیں یا نہ دیں۔“
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ پھر میں نے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال ایک میٹھی اور سرسبز و شاداب چیز ہے جو شخص اس کو بغیر حرص کے لیتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو شخص اس کو طمع کے ساتھ لیتا ہے اس کو اس میں برکت نہیں دی جاتی اور وہ شخص مثل اس کے ہوتا ہے جو کھائے اور سیر نہ ہو اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے جدا ہو جاؤں پس (جب) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کو وظیفہ کے لیے (جو تمام اصحاب کے لیے مقرر ہوا تھا) بلاتے رہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں انہیں بلایا تاکہ انہیں وظیفہ دیں مگر انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اے مسلمانو! میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں حکیم (رضی اللہ عنہ) کے روبرو ان کا حق پیش کرتا ہوں مگر وہ اس غنیمت میں سے اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔ القصہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔
|