كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 17. باب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ باب: میت کو غسل دینے سے غسل کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے“۔
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے، ۵- بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں: میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے، ۶- احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے، ۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1463) (تحفة الأشراف: 1726) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمہور نے باب کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے کیونکہ ابن عباس کی ایک روایت میں ہے «ليس عليكم في غسل ميتكم غسل إذا اغسلتموه إن ميتكم يموت طاهرا وليس بنجس، فحسبكم أن تغسلوا أيديكم» ”جب تم اپنے کسی مردے کو غسل دو تو تم پر غسل واجب نہیں ہے، اس لیے کہ بلاشبہ تمہارا فوت شدہ آدمی (یعنی عورتوں، مردوں، بچوں میں سے ہر ایک) پاک ہی مرتا ہے، وہ ناپاک نہیں ہوتا تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ دھو لیا کرو“ لہٰذا اس میں اور باب کی حدیث میں تطبیق اس طرح دی جائے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو استحباب پر محمول کیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ غسل سے مراد ہاتھوں کا دھونا ہے، اور صحیح قول ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد نہانا مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1463)
|