(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، وعمر يمشون امام الجنازة ". قال الزهري: واخبرني سالم، ان اباه كان يمشي امام الجنازة. قال: وفي الباب، عن انس. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر هكذا رواه ابن جريج، وزياد بن سعد، وغير واحد، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه نحو حديث ابن عيينة، وروى معمر، ويونس بن يزيد، ومالك , وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يمشي امام الجنازة ". واهل الحديث كلهم يرون ان الحديث المرسل في ذلك اصح. قال ابو عيسى: وسمعت يحيى بن موسى، يقول: قال عبد الرزاق: قال ابن المبارك: حديث الزهري في هذا مرسل اصح من حديث ابن عيينة، قال ابن المبارك: وارى ابن جريج اخذه عن ابن عيينة. قال ابو عيسى: وروى همام بن يحيى هذا الحديث، عن زياد وهو: ابن سعد، ومنصور، وبكر، وسفيان، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، وإنما هو سفيان بن عيينة، روى عنه همام، واختلف اهل العلم في المشي امام الجنازة، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ان المشي امامها افضل، وهو قول: الشافعي، واحمد، قال: وحديث انس في هذا الباب غير محفوظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَالِكٌ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عن الزُّهْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". وَأَهْلُ الْحَدِيثِ كُلُّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت يَحْيَى بْنَ مُوسَى، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَأَرَى ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَهُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ زِيَادٍ وَهُوَ: ابْنُ سَعْدٍ، وَمَنْصُورٍ، وَبَكْرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، رَوَى عَنْهُ هَمَّامٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَهَا أَفْضَلُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي هَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث اسی طرح ہے، اسے ابن جریج، زیاد بن سعد اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے، اور زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ معمر، یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اور بھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے، ۲- ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے، اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے، ۴- ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیاد بن سعد، منصور، بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے، زہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے، ۵- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎، ۶- جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔ شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «و موطا امام مالک/الجنائز 2 (8)، انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19393) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ملاحظہ ہو اگلی حدیث (۱۰۱۰) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آ رہی ہے «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها» تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ۱۰۱۱)
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن انس، " ان النبي صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، وعمر، وعثمان كانوا يمشون امام الجنازة ". قال ابو عيسى: سالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: هذا حديث خطا، اخطا فيه محمد بن بكر، وإنما يروى هذا الحديث عن يونس، عن الزهري، ان النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر، وعمر كانوا يمشون امام الجنازة، قال الزهري: واخبرني سالم، ان اباه كان يمشي امام الجنازة، قال محمد: هذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا أَصَحُّ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم جنازے کے آگے چلتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔ یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے، اور یونس زہری سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئیے سابقہ حدیث ۱۰۰۹)