كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 12. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّعْىِ باب: موت کی خبر دینے کی کراہت۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «نعی» (موت کی خبر دینے) ۱؎ سے بچو، کیونکہ «نعی» جاہلیت کا عمل ہے“۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: «نعی» کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔
اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9461) (ضعیف) (سند میں میمون ابو حمزہ اعور ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: کسی کی موت کی خبر دینے کو «نعی» کہتے ہیں، «نعی» جائز ہے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر دی ہے، اسی طرح زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہما کی وفات کی خبریں بھی آپ نے لوگوں کو دی ہیں، یہاں جس «نعی» سے بچنے کا ذکر ہے اس سے اہل جاہلیت کی «نعی» ہے، زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مر جاتا تھا تو وہ ایک شخص کو بھیجتے جو محلوں اور بازاروں میں پھر پھر کر اس کے مرنے کا اعلان کرتا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج إصلاح المساجد (108) // ضعيف الجامع الصغير (2211) //
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ ” «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے“۔
۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں، ۴- بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مر گیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے، ۶- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔ تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں مر جاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہو گی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 14 (1497) (تحفة الأشراف: 3303) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1476)
|