كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 15. باب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا“، یا فرمایا: ”تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا“، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: ”اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو“۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی الله عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا“۔
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلیم رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے، ۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کر دیا جائے گا، ۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کر دیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو“، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کر دیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں، ۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہو گا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 31 (167)، والجنائز 10 (1255)، و11 (1256)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3144، 3145)، سنن النسائی/الجنائز 31 (1885)، و32 (1886)، (تحفة الأشراف: 18102، و18109، و18111، و18124، 18135) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 8 (1253)، و9 (1254)، و12 (1257)، و13 (1258)، و14 (1260)، و15 (1261)، و16 (1262)، و17 (1263)، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3142، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 33 (3142، 3143، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 28 (1882)، و30 (1884)، و33 (1887)، و34 (1888، 1889، 1890)، و35 (1891، 1892)، و36 (1894، 1895)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1458)، موطا امام مالک/الجنائز 1 (2)، مسند احمد (6/407)، من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی الله عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی الله عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی الله عنہا تھیں، صحیح پہلا قول ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1458)
|