معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں روبرو بتایا، کہا: (معاہدہ صلح کی) اس مدت کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی، میں سفر پر گیا۔ کہا: اس اثنا میں، جب میں شام میں تھا، ہر قل، یعنی شامِ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خط لایا گیا۔ کہا: اسے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے اور حاکم بُصریٰ کے حوالے کیا، بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل تک پہنچا دیا تو ہرقل نے کہا: کیا اس شخص کی قوم میں سے، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، کوئی شخص یہاں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا: تو قریش کے کچھ افراد سمیت مجھے بلایا گیا، ہم ہرقل کے پاس آئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا: تم میں سے نسب میں اس آدمی کے سب سے زیادہ قریب کون ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: میں نے جواب دیا: میں ہوں۔ تو ان لوگوں نے مجھے ان کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا: ان سے کہہ دو: میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ کہا: ابوسفیان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی تو میں جھوٹ بولتا۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھو: تم میں اس کا حسب (خاندان) کیسا ہے؟ کہا: میں نے جواب دیا: وہ ہم میں حسب والا ہے۔ اس نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا اس نے (نبوت کے حوالے سے) کو کہا، اس کے کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: اس کے پیروکار کون لوگ ہیں؟ بڑے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ہیں؟ میں نے جواب دیا: بلکہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ کہا: میں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا ان میں سے کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اسے ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں۔ اس نے پوچھا: تو تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی؟ میں نے جواب دیا: ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح ہے، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے اور ہم اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ بدعہدی کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں، ہم اس کی جانب سے (کی گئی) صلح کے زمانے میں ہیں، ہمیں معلوم نہیں، وہ اس میں کیا کرے گا۔ کہا: اللہ کی قسم! اس ایک کلمے کے سوا اس میں کوئی اور بات ملانا میرے لیے ممکن نہ ہوا۔ اس نے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے وہ بات کہی ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو: میں نے تم سے اس کے حسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں (اونچے) حسب والا ہے۔ رسول اسی طرح ہوتے ہیں، اپنی قوم کے اعلیٰ خاندانوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ اور میں نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے دعویٰ کیا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا: وہ آدمی اپنے آباء کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا: وہ کمزور لوگ ہیں یا اشراف ہیں؟ تو تم نے کہا: بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں، رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ جو وہ کہتا ہے اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے تو تم نے کہا: نہیں، اس طرح میں جان گیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناراض ہو کر اس کے دین سے نکلا ہے؟ تو تم نے کہا: نہیں، ایمان جب دلوں میں رچ بس جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں، ایمان ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا تم نے اس سے لڑائی کی؟ تو تم نے کہا کہ (ہاں) تم نے اس سے لڑائی کی ہے اور تمہارے اور اس کے درمیان جنگ ڈول کی طرح ہے، وہ تم میں سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تم اس کے لوگوں میں سے قتل کرتے ہو، رسول اسی طرح ہوتے ہیں، انہیں آزمایا جاتا ہے، پھر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں، وہ بدعہدی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی (کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟) تو تم نے کہا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر کسی نے اس سے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا: یہ آدمی وہی بات کہنا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے۔ کہا: پھر اس نے پوچھا: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاکبازی کا حکم دیتا ہے۔ اس نے کہا: اگر تم جو اس کے بارے میں کہتے ہو، سچ ہے، تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ان سے ملنے کو محبوب رکھوں۔ اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا اور ان کی حکومت اس زمین تک پہنچ کر رہے گی جو میرے قدموں کے نیچے ہے۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں (لکھا) تھا: اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ، روم ہرقل کے نام، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا، اس کے بعد، میں تمہیں اسلام کے بلاوے کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پا لو گے، اسلام قبول کر لو، اللہ تمہیں دو بار اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو کسانوں (عام لوگوں) کا گناہ (جو تمہارے پیچھے چلتے ہیں) تم پر ہو گا۔ اور "اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیں، (تم) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار (اسلام قبول کرنے والے) ہیں۔" جب وہ خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور شور بڑھ گیا، اس نے ہمارے بارے میں حکم دیا تو ہمیں باہر بھیج دیا گیا۔ کہا: جب ہم باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑا ہو گیا ہے، اس سے تو بنو اصفر (اہل روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ وہ غالب آئیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھ میں اوپر سے (غالب کر کے) اسلام داخل کر دیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے روبرو بتایا کہ میں اس معاہدہ کے دوران جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، میں شام میں ہی تھا کہ شاہ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لایا گیا اور لانے والے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اس نے اسے بصریٰ کے حاکم کے حوالہ کیا اور بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل کو دے دیا تو ہرقل نے پوچھا، کیا ادھر اس آدمی کی قوم کا کوئی فرد موجود ہے، جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا، جی ہاں تو مجھے قریش کے کچھ افراد کے ساتھ بلایا گیا تو ہم ہرقل کے پاس پہنچے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا، تم میں سے زیادہ قریبی اس انسان کا رشتہ دار کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابو سفیان نے بتایا، میں نے کہا، میں ہوں تو درباریوں نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا، پھر اس نے اپنی ترجمانی کرنے والے کو بلایا اور اسے کہا، ان قریشیوں کو کہہ دے، میں اس (ابو سفیان) سے اس انسان کے بارے میں سوال کرنے والا ہوں، جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے تو اگر یہ جھوٹ بولے تو اسے جھٹلا دینا، ابو سفیان نے بتایا، اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میرا جھوٹ نقل کیا جائے گا تو میں جھوٹ بولتا، پھر اس نے اپنے مترجم سے کہا، اس سے پوچھو، تم میں اس کا خاندان کیسا ہے؟ میں نے کہا، وہ ہم میں اچھے حسب والا ہے، اس نے پوچھا، کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟میں نے کہا، نہیں، اس نے پوچھا، کیا اس کے اس دعویٰ سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے تھے؟میں نے کہا، جی نہیں، اس نے پوچھا، اس کے پیروکار کون ہیں؟ بڑے لوگ یا ماتحت لوگ؟ (یعنی اعلیٰ طبقہ یا ادنیٰ طبقہ)میں نے کہا، بلکہ فروتر طبقہ (کمزور لوگ)اس نے پوچھا، کیا وہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ میں نے کہا، جی نہیں، گھٹ نہیں رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں، اس نے پوچھا، کیا ان میں سے کوئی دین سے ناراض ہو کر پیچھے بھی ہٹتا ہے جبکہ وہ پہلے دین کو قبول کر چکا ہو؟میں نے کہا، نہیں، اس نے پوچھا تو کیا تم نے اس سے جنگ لڑی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، (لڑی ہے) اس نے پوچھا تو اس سے جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟میں نے کہا، ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی ڈولوں کی طرح ہے، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے، ہم اس کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اس نے پوچھا، کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ میں نے کہا، جی نہیں اور ہمارا اس کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہوا ہے، ہم نہیں جانتے، وہ اس کا کیا حشر کرتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا، اللہ کی قسم! میں اس کے سوا کوئی عیب لگانے والا بول نہ بول سکا، اس نے پوچھا، کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا، جی نہیں، اس نے اپنے مترجم سے کہا، اس سے کہہ دو، میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں سوال کیا تو نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور رسولوں کے بارے میں اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ اپنی قوم کے بہترین نسب کے مالک ہوتے ہیں۔اور میں نے تجھ سے سوال کیا کہ کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو نے کہا، جی نہیں، میں نے سوچ لیا، اگر اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں خیال کر لیتا، ایک آدمی ہے، جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہی کا طالب ہے۔اور میں نے تجھ سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا، کیا وہ زیردست کمزور لوگ ہیں یا صاحب حیثیت، سردار ہیں؟ تو نے کہا، (جی نہیں) وہ تو کمتر حیثیت کے لوگ ہیں (میں نے سوچ لیا) رسولوں کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور میں نے تم سے سوال کیا، اس نے جو دعویٰ کیا ہے، اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے تھے؟ تو تو نے کہا کہ نہیں تو میں نے خوب جان لیا، یہ ممکن نہیں ہے کہ جو لوگوں کی طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرے، پھر اللہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے لگےاور میں نے تم سے سوال کیا کیا ان میں سے کوئی ایک اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے واپس لوٹ آتا ہے تو تو نے کہا، جی نہیں، ایمان کی صورت یہی ہے، جب وہ دلوں میں رچ بس جاتا ہے یا ان میں اتر جاتا ہے۔اور میں نے تجھ سے پوچھا، کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ تو تو نے کہا، وہ بڑھ رہے ہیں، ایمان کی حالت یہی ہے حتی کہ وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا تم نے اس سے جنگ لڑی ہے؟ تو تو نے کہا، تم نے ان سے جنگ لڑی ہے اور لڑائی تمہارے درمیان ڈولوں کی طرح تقسیم ہوتی ہے، وہ تمہیں نقصان پہنچاتا ہے اور تم اسے نقصان پہنچاتے ہو، رسولوں کی یہی صورت ہے، انہیں آزمایا جاتا ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے تو تو نے کہا، وہ عہد شکنی نہیں کرتا، رسولوں کی صورت یہی ہے، وہ عہد شکنی نہیں کرتے۔اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ تو تو نے کہا، نہیں تو میں نے کہا (دل میں) اگر یہ دعویٰ اس سے پہلے کسی نے کیا ہوتا تو میں سوچ لیتا، ایک آدمی ہے ایسی بات کی اقتدا کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے،پھر اس نے پوچھا، وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا، وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کی تلقین کرتا ہے، اس نے کہا، اگر جو کچھ تو اس کے بارے میں کہتا ہے، سچ ہے تو وہ یقینا نبی ہے۔اور میں خوب جانتا ہوں وہ ظاہر ہونے والا ہے، لیکن میں اسے تم (عربوں) میں سے گمان نہیں کرتا تھا اور اگر میں جان لوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو میں ان کے قدم دھوتا اور اس کا اقتدار یقینا یہاں تک پہنچ کر رہے گا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ منگوایا اور اسے پڑھا اس میں یہ لکھا تھا، "اللہ کے نام سے جو انتہائی مہربان اور بار بار رحم فرمانے والا ہے، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے، رومیوں کے بڑے ہرقل کے نام، سلامتی اس کے لیے جس نے ہدایت کو اختیار کیا، اس کے بعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، مسلمان ہو جاؤ، بچ جاؤ گے اور مسلمان ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر دے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو کسانوں کا گناہ بھی تیرے ذمہ ہے اور ”اے اہل کتاب ایسے بول کی طرف لوٹ آؤ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترکہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں گے، اگر ہم اعراض کریں تو تم کہہ دو، گواہ ہو جاؤ، ہم تو مسلمان ہیں۔“