كتاب الافتتاح کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام 30. بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} باب: آیت کریمہ: ”اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو“ (الاعراف: ۲۰۴) کی تفسیر۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۱؎، اور جب «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «اللہم ربنا لك الحمد» کہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 69 (604)، سنن ابن ماجہ/إقامة 13 (846) مطولاً، (تحفة الأشراف: 12317)، مسند احمد 2/376، 420، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 74 (722)، 82 (734)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (414)، سنن الدارمی/فیہ 71 (1350) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورۃ فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت «و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» والی حدیث سے استثناء بھی آ گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مخرمی کہتے تھے: وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|