سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
30. بَابُ : تَأْوِيلِ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
باب: آیت کریمہ: ”اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو“ (الاعراف: ۲۰۴) کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 922
أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قال: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۱؎، اور جب «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «اللہم ربنا لك الحمد» کہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 69 (604)، سنن ابن ماجہ/إقامة 13 (846) مطولاً، (تحفة الأشراف: 12317)، مسند احمد 2/376، 420، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 74 (722)، 82 (734)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (414)، سنن الدارمی/فیہ 71 (1350) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورۃ فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت «و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» والی حدیث سے استثناء بھی آ گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 922 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 922
922 ۔ اردو حاشیہ: «فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا» ”جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو۔“ میں ”فاء“ تعقیب کے لیے ہے، یعنی تکبیر امام سے پہلے نہ برابر بلکہ امام کے فوری بعد کہو۔ اس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: ”امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہہ لے تم تکبیر نہ کہو۔ اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ۔ اور اس وقت تک تم رکوع میں نہ جاؤ جب تک کہ وہ رکوع کے لیے جھک نہ جائے۔ اور جب وہ «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم کہو: «اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» مسلم بن ابراہیم «ولَكَ الْحَمْدُ» کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔ (اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ) اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ اور اس وقت تک تم سجدے کے لیے نہ جھکو جب تک کہ وہ سجدے میں چلا نہ جائے۔“ [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 603]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت ہوتی ہے جس سے نماز کا ثواب بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 922
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 603
´امام کے بیٹھ کر نماز پڑھانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، تو جب امام «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، تم اس وقت تک «الله أكبر» نہ کہو جب تک کہ امام «الله أكبر» نہ کہہ لے، اور جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، تم اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک کہ وہ رکوع میں نہ چلا جائے، جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو (مسلم کی روایت میں «ولك الحمد» واو کے ساتھ ہے)، پھر جب امام سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور تم اس وقت تک سجدہ نہ کرو جب تک کہ وہ سجدہ میں نہ چلا جائے، اور جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «اللهم ربنا لك الحمد» کو مجھے میرے بعض ساتھیوں نے سلیمان کے واسطہ سے سمجھایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 603]
603۔ اردو حاشیہ:
➊ ابتدائے اسلام میں حکم ایسے ہی تھا کہ امام اور مقتدی دونوں ایک ہی حالت میں ہوں۔ لیکن اب یہ حکم نہیں ہے بلکہ امام کسی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی تھا۔
➋ مقتدی کے لئے واجب ہے کہ انتقال ارکان میں امام سے پیچھے رہے اس سے سبقت (پہل) نہ کرے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 603
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 604
´امام کے بیٹھ کر نماز پڑھانے کا بیان۔`
اس طریق سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے «إنما جعل الإمام ليؤتم به» والی یہی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے، اس میں راوی نے «وإذا قرأ فأنصتوا» ”جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو“ کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «وإذا قرأ فأنصتوا» کا یہ اضافہ محفوظ نہیں ہے، ہمارے نزدیک ابوخالد کو یہ وہم ہوا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 604]
604۔ اردو حاشیہ:
اور دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی کو خاموش رہنے کا یہ حکم فاتحہ کے علاوہ کی قرأت کے لئے ہے اور مقتدی کو ہر صورت میں خاموشی کے ساتھ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 604
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 923
´آیت کریمہ: ”اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو“ (الاعراف: ۲۰۴) کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مخرمی کہتے تھے: وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 923]
923 ۔ اردو حاشیہ: انصات کی بحث، یعنی اس میں خاموش رہنے کا جو حکم ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر: 910، فائدہ نمبر: 4۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 923
الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 827
´صفوں کی درستی`
«. . . سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِهُ . . .»
”. . . صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/ بَابُ إِقَامَةِ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ:/ ح: 722]
فوائد و مسائل
سوال: ہمارے امام صاحب نماز سے پہلے صفوں کی درستی پر بڑا زور دیتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صف درست کرنا اقامت صلاۃ میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
”صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔“
اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«سووا صفوفكم فان تسوية الصف من تمام الصلاة» [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها 433، أبوداؤد 668، ابن ماجه 993، أبوعوانة 38/2، دارمي 1266، أحمد 177/3]
”صفیں درست کرو بےشک صف کی درستی نماز کے پوراکرنے سے ہے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفوں کی درستی اقامت صلاۃ اور تمام صلاۃ سے ہے اور ان کا ٹیڑھا ہونا نماز کے نقصان کا موجب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَقِيْمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَاِنَّ اِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب إقامة الصف من تمام الصلاة 722، عبدالرزاق 2424]
”نماز میں صف قائم کرو، بےشک صف کا قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَحْسِنُوْا اِقَامَةَ الصُّفُوْفِ فِي الصَّلَاةِ» [أحمد 485/2]
”نماز میں صفوں کی درستی اچھے طریقے سے کرو۔“
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ [صحيح الترغيب والترهيب 496]
ان صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ صف کا صحیح و درست رکھنا نماز کے حسن و خوبصورتی میں سے ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اگر صف کی درستی صحیح نہ ہو گی تو نماز کے اندر نقصان لازم آئے گا۔ صفوں کی درستی اور ان کا سیدھا ہونا رکوع ہی میں نہیں بلکہ قیام ہی سے ضروری و لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے صفیں درست کرتے تھے پھر نمازشروع کرتے تھے۔ اگر صف میں نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف درست کرتے تھے حتی کہ اسے نیزے یا تیر کی مانند کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کاسینہ آگے بڑھا ہوا دیکھا تو فرمایا: ”اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔“ بعض روایات میں چہروں کی بجائے دلوں کا ذکر ہے۔ [ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب إقامة الصفوف 994، أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 663، مسلم 436، بخاري 717۔ مختصر]
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک صفوں میں چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے اور کہتے: ”اختلاف نہ کرو، تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔“ اور کہا کرتے تھے: ”بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔“ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 664، نسائي، كتاب الإمامة: باب كيف يقول الإمام الصفوف 812]
زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ صف کی درستی نماز شروع کرنے سے پہلے ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا کام صفیں درست کرنا بھی ہے۔ اگر کہیں صف میں خلل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح کرائے پھر نماز شروع کرے۔ لیکن افسوس کہ ائمہ مساجد آج اس بات کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اقامت کہنے کے ساتھ ہی نماز شروع کر دی جاتی ہے۔ صفوں کی درستی نہیں کرائی جاتی۔ نماز میں ہر شخص کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اپنے ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں پورا ملا ہو، درمیان میں کوئی خلا نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا پر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”یقیناًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو قائم کرو اور کندھوں اور بازوؤں کو برابر کرو اور شگاف بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو اور جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دے گا۔“ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف666، نسائي، كتاب الامامة: باب من وصل صفاََ 818، حاكم 1/ 213]
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ [صحيح الترغيب و التر هيب 492]
امام منذری رحمہ اللہ اس حدیث میں موجود لفظ «فرجات» کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«الْفُرُجَاتُ جَمْعُ فُرْجَةٍ وَهِيَ الْمَكَانُ الْخَالِيْ بَيْنَ الْاِثْنَيْنِ»
”لفظ «فرجات» «فرجة» کی جمع ہے اور اس کا مطلب دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ ہے۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف میں شگاف بند کرنے چاہئیں اور دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا جو لوگ دو نمازیوں کے درمیان چار انگلیوں یا اس سے زیادہ فاصلہ کرتے ہیں، ان کا عمل درست نہیں، انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ اَحَدَنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ وَلَوْ ذَهَبَتْ تَفْعَلُ ذٰلِكَ لَتَرَيٰ اَحَدَهُمْ كَاَنَّهُ بَغْلٌ شُمُوْسٌ» [ابن أبى شيبة 3524، 308/1، فتح الباري 211/2، عمدة القاري 260/5]
”میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں سے چپکا دیتا تھا اور اگر تو آج کسی کے ساتھ ایسا کرے تو ان میں سے ہر کسی کو دیکھے گا کہ وہ (ایسے بدکتا ہے) گویا وہ شریر خچر ہے۔“
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”اپنی صفوں کو قائم کرو (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی) اللہ کی قسم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔“ صحابی فرماتے ہیں: ”پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے، اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔“ [ابوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف622، بخاري، كتاب الأذان: باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم تعليقًا، أحمد 276/4، ابن حبان 396، دارقطني 282/1]
ابوعثمان النہدی فرماتے ہیں:
«كُنْتُ فِيْمَنْ ضَرَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَدَمَهُ لِإِقَامَةِ الصَّفِّ فِي الصَّلَاةِ» [المحلي لابن حزم 58/4، موسوعة فقه عمر بن الخطاب رضى الله عنه ص/445، ابن أبى شيبة 3530، 309/1، فتح الباري 210/2]
”میں ان لوگوں میں تھا جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نماز میں صف قائم کرنے کے لیے پاؤں پر مارا تھا۔“
صالح بن کیسان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایاکرتے تھے:
«لَاَنْ يَّخِرَّ ثِنْتَايَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ أَنْ أَرٰي فِي الصَّفِّ خَلَاءً وَلَا اَسُدُّهُ» [عبدالرزاق 2473، 57/2، ابن أبى شيبة 333/1، المحلي 59/4]
”مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جائیں اس بات سے کہ اگر میں صف میں شگاف دیکھوں اور اسے بند نہ کروں۔“
درج بالا صحیح اور حسن احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز شروع کرتے وقت پہلے صفیں سیدھی کرنی چاہئیں۔ اگر صف میں کوئی خلا ہو تو اس کو بند کیا جائے۔ امام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صفیں درست کرائے۔ ہر نمازی اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملائے اور اپنے بھائی کے ہاتھ میں نرم ہو جائے۔ جب صف درست ہو جائے تو امام نماز شروع کرے اور یہ عمل قیام ہی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ قیام میں تو کندھوں میں اور پاؤں میں وقفہ ہو اور رکوع میں ملانا شروع کر دیں۔ اسی طرح پاؤں کی صرف ایک انگلی نہیں بلکہ پورا قدم ملایا جائے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ملایا کرتے تھے اور قدم ملانے سے شریر خچر کی طرح بدکنا نہیں چاہیے۔ پاؤں ملانے اور شگاف بند کرنے سے نمازی اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر قسم کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 204
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 320
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”امام کو اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہذا جب وہ «الله اكبر» کہے تو تم بھی «الله اكبر» کہو اور تم (امام سے پہلے) «الله اكبر» نہ کہا کرو یہاں تک کہ وہ تکبیر کہے اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کیا کرو اور تم (امام سے پہلے) رکوع نہ کیا کرو اور جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اس سے پہلے سجدہ نہ کرو یہاں تک کہ وہ سجدہ کرے۔ جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ متن حدیث کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور اس کی اصل صحیحین بخاری و مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 320»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الإمام يصلي من قعود، حديث:603، 604، وأصله في الصحيحين: البخاري، الأذان، حديث:722، ومسلم، الصلاة، حديث:414.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتدیوں کو امام کی پیروی و اتباع کرنی چاہیے۔
کسی چیز میں امام سے آگے نہ بڑھیں۔
تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک امام کے پیچھے پیچھے رہنے کی کوشش کریں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جب آپ سجدہ میں سر مبارک رکھ لیتے تو پھر ہم سجدے کے لیے جھکتے تھے۔
(صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب متی یسجد من خلف الإمام؟ حدیث:۶۹۰) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 320
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث846
´جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «ألله أكبر» کہے تو تم بھی «ألله أكبر» کہو، اور جب قراءت کرے تو خاموشی سے اس کو سنو ۱؎، اور «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو آمین کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہے تو «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو“ ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 846]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مقتدی کو اپنی حرکات وسکنات میں امام اسے آگے بڑھنا نہیں ہے۔
بلکہ امام سے پیچھے رہنا چاہیے۔
(2)
امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے۔
کہ جب سورۃ فاتحہ کے بعد امام دوسری سورت پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سنیں۔
وہ کوئی دوسری سورت نہ پڑھیں۔
سورہ فاتحہ کے بارے میں حضرت ابو یرہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں گزر چکا ہے۔
کہ مقتدی کو فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔
دیکھئے۔ (حدیث 838)
(3)
جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے۔
تو مقتدیوں کا بھی کوئی اور عذر نہ ہونے کے باوجود بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا حکم منسوخ ہے۔
نبی اکرم ﷺنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں بیماری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ کھڑے تھے۔
اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔
رسول اللہ ﷺ نے ضعف کی وجہ سے بلند آواز سے تکبیر نہیں کہہ سکتے تھے۔
اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی تکبیر سن کربلند آواز میں تکبیر کہتے تھے۔
تاکہ تمام نمازی سن سکیں۔
دیکھئے۔ (صحیح البخاري، الأذان، باب حد المریض أن یشھد الجماعة، حدیث: 664)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 846
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:962
962- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب قرأت کرنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، تو جس شخص کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے ساتھ ہوا س شخص کے گزشتہ گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:962]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام کی آمین ختم ہونے کے بعد آمین شروع کرنی چاہئے، یہ بھی ثابت ہوا کہ آ مین اونچی آواز سے کہنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 961
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:988
988- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے: ”امام امیر ہے اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے، تو تم لوگ بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو اگر وہ کھڑا ہو کر نماز ادا کرتا ہے، تو تم لوگ بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:988]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کی اقتداء ضروری ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 988
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1156
1156- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص میری اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ اور جوشخص میرے امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1156]
فائدہ:
اس حدیث میں امیر کی اطاعت کا درس موجود ہے، اور یاد رہے کہ امیر سے مراد”خلیفۃ مسلمین“ ہے نہ کہ تنظیمی امیر، کلاس اور مدرسہ کا امیر، ویسے ہر اس شخص کی بات تسلیم کرنی چاہیے جس کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہو، وہ گویا اس شخص کی بات نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی بات ماننا ہے، ان احادیث کو کاغذی تنظیموں کے امیروں پر فٹ کرنا درست نہیں ہے، اگر خلیفۃ المسلمین قرآن و حدیث کے خلاف بات کرے تو اس کی بات رد کی جا سکتی ہے تو تنظیموں کے عارضی امیر کی بات کیوں نہیں رد کی جاسکتی۔ غلو سے کام لینا منع ہے، قرآن و حدیث کی اتباع میں ہی کامیابی ہے، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون کیا ہے؟ روز قیامت سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1154
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 722
722. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا اس سے اختلاف نہ کرو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا لك الحمد کہو۔ جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب کے سب بیٹھ کر نماز ادا کرو، نیز نماز میں صفوں کو سیدھا کرو کیونکہ صف کا درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک جز ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:722]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نماز میں صف درست کرنے کے لیے آدمی آگے پیچھے سرک جائے یا صف ملانے کے واسطے کسی طرف ہٹ جائے یا کسی کو کھینچ لے تو اس سے نماز میں خلل نہیں آئے گا بلکہ ثواب پائے گا کیوں کہ صف برابر کرنا نماز کا ایک ادب ہے۔
امام کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھنا پہلے تھا بعد میں آپ کے آخری فعل سے یہ منسوخ ہو گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 722
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 734
734. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھیاللہ أکبر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:734]
حدیث حاشیہ:
اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔
بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لك الحمد کہیں۔
حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری ؒ بذیل حدیث أبوهریرة رضي اللہ عنه ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبه من الرکعة ثم یقول وهو قائم ربنا و لك الحمد فرماتے ہیں:
ربنا لك الحمد بحذف الواو، وفي رواية بإثباتها. وقد تقدم أن الرواية بثبوت الواو أرجح، وهي عاطفة على مقدر. أي ربنا أطعناك، وحمدناك، ولك الحمد. وقيل:
زائدة. قال الأصمعي:
سألت أبا عمرو عنها فقال:
زائدة. تقول العرب:
بعني هذا، فيقول المخاطب:
نعم، وهو لك بدرهم، فالواو زائدة. وقيل:
هي واو الحال، قاله ابن الأثير وضعف ما عداه. وفيه أن التسميع ذكر النهوض والرفع، والتحميد ذكر الاعتدال، واستدل به على أنه يشرع الجمع بين التسميع والتحميد لكل مصل من إمام، ومنفرد، ومؤتم، إذ هو حكاية لمطلق صلاته - صلى الله عليه وسلم۔
(مرعاة، ج: 1 ص: 559)
ربنا لك الحمد حذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔
یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔
بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔
بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔
اور ربنا و لك الحمد کہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔
اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہی سمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لك الحمد کہیں۔
اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 734
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:734
734. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ اللہ أکبر کہے تو تم بھیاللہ أکبر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:734]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں افتتاحِ نماز کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ أکبر سے ہونا چاہیے، اس حدیث میں واضح طور پر اس کا ذکر ہے۔
اس کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی اس کے متعلق وضاحت ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم اللہ أکبر اور تحلیل السلام علیکم ورحمة اللہ ہے۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 618)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ أکبر کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1110(498)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ اللہ أکبر سے نماز شروع کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نماز کا افتتاح اللہ أکبر سے ہونا چاہیے۔
(فتح الباري: 281/2) (2)
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔
یہ پہلے کا حکم ہے جو منسوخ ہوچکا ہے۔
اب حکم یہ ہے کہ جب امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تندرست مقتدیوں کو بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہو کر اقتدا کرنی چاہیے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی اور آپ کے پیچھے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔
رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل اور فیصلہ یہی ہے اور اسی کو امام بخاری ؒ نے اختیار کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 689)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 734