كتاب الافتتاح کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام 24. بَابُ: إِيجَابِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاَةِ باب: نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 95 (756)، صحیح مسلم/الصلاة 11 (394)، سنن ابی داود/فیہ 136 (822)، سنن الترمذی/فیہ 69 (247)، سنن ابن ماجہ/إقامة 11 (837)، (تحفة الأشراف: 5110)، مسند احمد 5/314، 321، 322، سنن الدارمی/الصلاة 36 (1278) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل، اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی، کیونکہ «لاء» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہٰذا جز یا کُل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب (زیادہ قریب) اور کمال ذات سے ابعد (زیادہ دور) ہے، اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد (بعید تر) ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 911 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع «ید» (ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے «لا تقطع الید إلا فی ربع دینار فصاعدا» ”چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا“ یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہٰذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ”اس شخص کی صلاۃ نہیں ہو گی جس نے سورۃ فاتحہ سے کم پڑھا“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|