سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
The Book of the Commencement of the Prayer
23. بَابُ: تَرْكِ قِرَاءَةِ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب: سورۃ الفاتحہ میں «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحیم» ‏‏‏‏ کی قرأت چھوڑ دینے کا بیان۔
Chapter: Not reciting "In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful" in Al Fatihah
حدیث نمبر: 910
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن، انه سمع ابا السائب مولى هشام بن زهرة يقول: سمعت ابا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج هي خداج هي خداج غير تمام"، فقلت يا ابا هريرة: إني احيانا اكون وراء الإمام فغمز ذراعي وقال: اقرا بها يا فارسي في نفسك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يقول الله عز وجل:" قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرءوا يقول العبد الحمد لله رب العالمين يقول الله عز وجل:" حمدني عبدي" يقول العبد: الرحمن الرحيم يقول الله عز وجل اثنى علي عبدي يقول العبد:" مالك يوم الدين يقول الله عز وجل مجدني عبدي يقول العبد إياك نعبد وإياك نستعين فهذه الآية بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال يقول العبد اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين فهؤلاء لعبدي ولعبدي ما سال".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ"، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" حَمِدَنِي عَبْدِي" يَقُولُ الْعَبْدُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ:" مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوسائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں، میں نے پوچھا: ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سورۃ فاتحہ پڑھو، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے ۲؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ «‏الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ «‏اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 11 (395)، سنن ابی داود/الصلاة 135 (821)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة 5 (2953)، سنن ابن ماجہ/إقامة 11 (838) (تحفة الأشراف: 14935)، موطا امام مالک/الصلاة 9 (39)، مسند احمد 2/241، 250، 285، 286، 290، 457، 460، 478، 487 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ۲؎: اسی سے مؤلف نے سورۃ فاتحہ میں «‏بسم الله الرحمن الرحيم» نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ اصل سورۃ فاتحہ تو «الحمد للہ» سے ہے، اور رہا پڑھنا «‏بسم الله» ‘ تو ہر سورۃ کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.