كتاب المواقيت کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل 35. بَابُ: النَّهْىِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ باب: عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک، اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4084) مسند احمد 3/ 6، 66 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 31 (586)، فضل الصلاة بمکة 6 (1197)، الصید 26 (1864)، الصوم 67 (1995)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (827)، (تحفة الأشراف: 4155)، مسند احمد 3/ 7، 39، 46، 52، 53، 60، 67، 71، 95 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5761)، سنن الدارمی/المقدمة 38 (440) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا ہے: ”سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 53 (833)، (تحفة الأشراف: 16158)، مسند احمد 6/ 124، 255 (کلاھما بدون قولہ ’’فإنھا…‘‘ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ فجر اور عصر کے بعد مطلقاً نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ صحیح نہیں بلکہ ممانعت اس بات کی ہے کہ آدمی نماز کے لیے ان دونوں وقتوں کو خاص کر لے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھنا اولیٰ و انسب ہے، یا یہ ممانعت سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کے وقت کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عصر اور فجر کے بعد مطلقاً، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً ہے کیونکہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں علی الاطلاق ممانعت وارد ہے، اور بعض روایات میں جو تقیید ہے وہ اطلاق کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی ہیں، نووی نے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ تحری والی روایت اس بات پر محمول ہو گی کہ فرض نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو جائے، اور مطلقاً ممانعت والی روایت ان صلاتوں پر محمول ہو گی جو سببی نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فإنها ...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 30 (582)، بدء الخلق 11 (3272)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (829)، موطا امام مالک/القرآن 10 (45) (مرسلاً)، مسند احمد 2/13، 19، 24، 106، (تحفة الأشراف: 7322) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہوتا ہو، یا کوئی ایسا وقت ہے جس میں اللہ کا ذکر مطلوب ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ عزوجل بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ہو جاؤ، کیونکہ فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور سورج نکلنے تک رہتے ہیں، (پھر چلے جاتے ہیں) کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اور یہ کافروں کی نماز کا وقت ہے، لہٰذا (اس وقت) تم نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج نیزہ کے برابر بلند ہو جائے، اور اس کی شعاع جاتی رہے پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر میں سورج نیزہ کی طرح سیدھا ہو جائے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہ ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور وہ بھڑکائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سایہ لوٹنے لگ جائے، پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، کیونکہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي: (تحفة الأشراف: 10761)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 52 (832) مطولاً، سنن ابی داود/الصلاة 299 (1277)، سنن الترمذی/الدعوات 119 (3574)، (مختصراً)، سنن ابن ماجہ/إقامة 182 (1364)، مسند احمد 4/111، 114 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|