كتاب المواقيت کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل 45. بَابُ: الْوَقْتِ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ باب: مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔
قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6649)، مسند احمد 2/12 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں سرکاری جانور چرا کرتے تھے اور یہ سرکاری چراگاہ تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، 13 (1106)، 14 (1109)، العمرة 20 (1805)، الجھاد 136 (3000)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 6844)، مسند احمد 2/7، 8، 51، 63 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے، تو آپ نے مقام سرف ۱؎ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 274 (1215)، (تحفة الأشراف: 2937)، مسند احمد 3/305 (ضعیف الإسناد) (اس کے رواة ’’مومل، یحییٰ، اور عبدالعزیز‘‘ تینوں حافظے کے کمزور رواة ہیں)»
وضاحت: ۱؎: سرف مکہ سے دس میل کی دوری پر ایک جگہ ہے سورج ڈوبنے کے بعد اتنی مسافت طے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جمع صوری نہیں حقیقی رہی ہو گی، اور نماز آپ نے شفق غائب ہونے کے بعد پڑھی ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 587 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چنانچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہو گئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 274 (1213)، (تحفة الأشراف: 7759) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کر لی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہو گئی ۱؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہو گئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے: جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8231) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جمع صوری تھی حقیقی نہیں، لیکن صحیح مسلم کی روایت میں نافع سے «جمع بین المغرب والعشاء بعدأن یغیب الشفق» کے الفاظ وارد ہیں، اور صحیح بخاری میں «حتیٰ کان بعد غروب الشفق نزل فصلی المغرب والعشاء جمعاًبینہما» اور سنن ابوداؤد میں «حتیٰ غاب الشفق وتصوبت النجوم نزل فصلی الصلاتین جمعاً» اور عبدالرزاق کی روایت میں «فاخرالمغرب بعد ذہاب الشفق حتیٰ ذہب ہوی من اللیل» کے الفاظ ہیں، ان روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اسے تعدد واقعہ پر محمول کیا جائے، نہیں تو صحیحین کی روایت راجح ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ ہم نے سالم بن عبداللہ سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا، ہم نے کہا: کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، سوائے مزدلفہ کے، پھر چونکے اور کہنے لگے: ان کے نکاح میں صفیہ تھیں، انہوں نے انہیں کہلوا بھیجا کہ میں دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ۱؎ (اس لیے آپ آ کر آخری ملاقات کر لیجئے)، تو وہ سوار ہوئے، اور میں اس ان کے ساتھ تھا، وہ تیز رفتاری سے چلتے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آ گیا، تو ان سے مؤذن نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئے، لیکن وہ چلتے رہے یہاں تک کہ دونوں نمازوں کا درمیانی وقت آ گیا، تو اترے اور مؤذن سے کہا: اقامت کہو، اور جب میں ظہر پڑھ لوں تو اپنی جگہ پر (دوبارہ) اقامت کہنا، چنانچہ اس نے اقامت کہی، تو انہوں نے ظہر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر تو (مؤذن نے) اپنی اسی جگہ پر پھر اقامت کہی، تو انہوں نے عصر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سوار ہوئے اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن نماز پڑھ لیجئے، تو انہوں نے کہا جیسے پہلے کیا تھا، اسی طرح کرو اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے تو اترے، اور کہنے لگے: اقامت کہو، اور جب سلام پھیر چکوں تو دوبارہ اقامت کہنا، پھر انہوں نے مغرب کی تین رکعت پڑھائی، پھر اپنی اسی جگہ پر اس نے پھر تکبیر کہی تو انہوں نے عشاء پڑھائی، اور اپنے چہرہ کے سامنے ایک ہی سلام پھیرا، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اسی طرح نماز پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 589 (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|