سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
35. بَابُ : النَّهْىِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
باب: عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 567
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى الطُّلُوعِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى الْغُرُوبِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک، اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4084) مسند احمد 3/ 6، 66 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 567 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن نسائی567
محدثین کے ابواب ”پہلے اور بعد؟!“
سوال:
الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔
اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر اُنھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔
کیا واقعی یہ بات درست ہے؟
اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے، اسی طرح محدثین نے پہلے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں، اہلِ حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔
کیا …… الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثینِ جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
الجواب:
گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:
6) امام نسائی نے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے منع والا باب باندھا:
«النَّهْيُ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ»
[سنن النسائي ص 78 قبل ح 567]
اور بعد میں عصر کے بعد نماز (نوافل) کی اجازت، کا باب باندھا:
«الرُّخْصَةُ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ»
[سنن النسائي ص 79 قبل ح 574]
کیا گھمن صاحب کے اصول سے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟!
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام [جلد 3 صفحه 250 تا 259]
تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 482
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 567
567 ۔ اردو حاشیہ: عصر اور صبح کے بعد مطلقاً نفل نماز سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اگر ان اوقات میں نفل نماز کی اجازت ہوتی تو لازماً طلوع اور غروب کے وقت بھی نماز پڑھی جانی تھی، اس لیے کہ طلوع اور غروب کی حتمی رؤیت تو مسجد کے اندر سے (یا گھروں میں بھی) ممکن نہیں ہے۔ غالباً اسی امکان کو ختم کرنے کے لیے مطلقاً روک دیا گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 567
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 136
´ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے`
«. . . عقبة بن عامر: ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينهانا ان نصلي فيهن وان نقبر فيهن موتانا . . .»
”. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے اور میت کی تدفین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرمایا کرتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 136]
� لغوی تشریح:
«لَا صَلَاةَ» یعنی نفلی نماز نہیں۔
«بَعْدَ الصُّبْحِ» یعنی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد۔ لیکن اس سے صبح کی سنتوں کے علاوہ نماز مراد ہے کیونکہ ان کی قضا نماز فجر کے بعد جائز ہے۔ علاوہ ازیں طلوع فجر کے بعد سببی نماز کے بعد مطلقاً نوافل کی ادائیگی مکروہ ہے۔
«نَقْبُرَ» ”با“ پر ضمہ اور کسرہ دونوں درست ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ ہم تدفین عمل میں لائیں۔
«مَوْتَانَا» «مَوْتَيٰ» میت کی جمع ہے۔ اپنے مرنے والوں کو۔۔۔
«بَازِغَةٌ» چمکتے ہوئے، روشن۔
«اَلظَّهِيرَةِ» نصف النہار، یعنی آدھے دن کا وقت۔
«قَائِمُ الظَّهِيْرَةِ» سے مراد دوپہر کا سایہ ہے اور «قَائِمُ الظَّهِيرة» کھڑے ہونے اور قائم ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چند ساعت کے لیے سیدھا قائم ہوتا ہے۔ اس وقت ہر چیز کا سایہ بالکل اس چیز کے اوپر ہوتا ہے۔ اِدھر اُدھر، مشرق اور مغرب کی جانب جھکا ہوا نہیں ہوتا۔
«تَزُولُ» آسمان کے وسط (درمیان) سے دوسری جانب مائل ہونا۔
«تَتَضَيَّفُ» بھی مائل ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
«وَالْحُكْمُ الثَّانِي»، یعنی عین نصف النہار میں نماز پڑھنے کی نہی، کیونکہ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ حکم دوسرے نمبر پر آیا ہے۔
«وَكَذَا لِأَبِي دَاوُدَ» ابوداود میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح ہے کہ بروز جمعہ نصف النہار کے وقت نماز کی اجازت ہے۔
«نَحْوُهُ» جس طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ لیکن سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہما سے مروی روایات ضعیف ہیں، اس لیے ان سے جمعے کے دن زوال کے وقت نماز پڑھنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ جمعے کے دن بھی زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی ممنوع ہی ہے۔ امام شافعی وغیرہ کی رائے، جس کی بنیاد ضعیف احادیث ہیں، مرجوح ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کا ذکر ہے۔
➋ ممنوع کام یہ ہیں کہ ہم ان اوقات میں نہ نماز ادا کریں نہ میت دفن کریں۔
➌ یہاں تدفین سے مراد نماز جنازہ بھی ہے کہ اس ممنوع وقت میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ میت کو دفن کیا جائے، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے۔ پہلا وقت طلوع آفتاب کا ہے کہ جب وہ طلوع ہو رہا ہو تو نماز اور جنازہ ممنوع ہیں حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور دوسرا وقت دوپہر کا ہے، جب سورج عین وسط آسمان پر قائم ہو، مغرب کی جانب زوال پذیر نہ ہوا ہو تو ایسے وقت میں بھی (نفلی) نماز یا نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ اور تیسرا وقت غروب آفتاب کا ہے، اس میں بھی نماز جنازہ یا میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔
➍ حدیث میں طلوع آفتاب کے بعد «تَرْتَفِعَ» کا ذکر ہے کہ وہ بلند ہو جائے، اس بلندی سے کیا مراد ہے؟ ابوداود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں اس اونچائی کا اندازہ ایک نیزہ یا دو نیزے کی مقدار مذکور ہے۔ جب سورج مشرق کے افق پر ایک نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا ہو جائے تو پھر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
راویٔ حدیث:
(سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ) ”عین“ پر ضمہ اور ”قاف“ ساکن ہے۔ ان کی کنیت ابوحماد یا ابوعامر ہے۔ ہجرت، صحبت اور اسلام میں سبقت حاصل کرنے والے قدیم صحابہ میں سے تھے۔ کتاب اللہ کے قاری اور علم میراث اور فقہ کے مشہور عالم تھے۔ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ معرکہ صفین میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کی طرف سے تین سال مصر کے والی رہے، نیز غزوۃ البحر کے امیر رہے۔ مصر میں 58 ہجری میں وفات پائی اور مقطم میں دفن ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 136
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1923
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز عصر کے بعد سے غروب شمس تک کوئی نماز نہیں ہے اور نماز فجر سےطلوع شمس تک کوئی نماز نہیں ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1923]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس طرح ظہر،
شام اور عشاء کی شریعت نے سنن راتبہ مقرر کی ہیں،
اس طرح کوئی نماز فجر اور عصر کے بعد مقرر نہیں کی،
لیکن فجر کی سنتیں آپﷺ کے سامنے پڑھی گئیں اور آپﷺ نے منع نہیں فرمایا،
اسی طرح عصر کے بعد آپﷺ نے خود ظہر کے بعد والی سنتیں پڑھی ہیں جس سے معلوم ہوا اگر ان اوقات میں نماز کا سبب پیدا ہو جائے تو پھر یہی نماز جائز ہے،
ہاں بلا سبب اور بلاوجہ محض نفل کے شوق میں پڑھنا درست نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:586
586. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”صبح کے بعد کوئی نماز نہیں تا آنکہ سورج بلند ہو جائے اور عصر کے بعد (بھی) کوئی نماز نہیں تا آنکہ سورج غروب ہو جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:586]
حدیث حاشیہ:
صبح اور عصر سے مراد وقت نہیں، بلکہ نماز فجر اور نماز عصر ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت (1197)
میں یہی ہے۔
ان نمازوں کے بعد کوئی نماز نہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے، عام نوافل نہ پڑھے جائیں۔
یہ دونوں اوقات، عین طلوع وغروب جیسے ممنوع اوقات نہیں ہیں۔
اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”صبح اور عصر کے بعد تم نماز نہ پڑھو الایہ کہ سورج صاف اور بلند ہو۔
“ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1274)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ حدیث میں وارد لفظ "بعد" اپنے عموم پر نہیں بلکہ اس سے مرادوقت طلوع یا وقت غروب ہے۔
عنوان سے حدیث کی مطابقت بایں طور ہے کہ جب فجر اور عصر کے بعد ممنوع نماز غیر صحیح ہے تو ایسی نماز ادا کرنے کےلیے کوشش کرنا چہ معنی دارد؟ عقل مند آدمی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔
(فتح الباري: 82/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 586