كتاب المواقيت کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل 51. بَابُ: فَضْلِ الصَّلاَةِ لِمَوَاقِيتِهَا باب: وقت پر نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 5 (527)، الجھاد 1 (2782)، الأدب 1 (5970)، التوحید 48 (7534)، صحیح مسلم/الإیمان 36 (85)، سنن الترمذی/الصلاة 13 (173)، البر والصلة 2 (1898)، (تحفة الأشراف: 9232)، مسند احمد 1/409، 439، 442، 451، سنن الدارمی/الصلاة 24 (1261) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل الاعمال (زیادہ بہتر) کہا گیا ہے، اس کی توجیہ بعض لوگوں نے اس طرح کی ہے کہ ان میں «مِن» پوشیدہ ہے یعنی من افضل الاعمال یعنی یہ کام زیادہ فضیلت والے عملوں میں سے ہے یا ان کی فضیلت میں مختلف اقوال، اوقات یا جگہوں کا اعتبار ملحوظ ہے، مثلاً کسی وقت اول وقت نماز پڑھنا افضل ہے، اور کسی وقت جہاد یا حج مبرور افضل ہے، یا مخاطب کے اعتبار سے اعمال کی افضیلت بتائی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 611 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
محمد بن منتشر سے روایت ہے کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے کہ نماز کی اقامت کہی گئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے (جب وہ آئے تو) انہوں نے کہا: میں وتر پڑھنے لگا تھا، (اس لیے تاخیر ہوئی) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا: کیا (فجر کی) اذان کے بعد وتر ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اور اقامت کے بعد بھی، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ۱؎ اس حدیث کے الفاظ یحییٰ بن حکیم کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9481)، وأعادہ برقم: 1686 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ وقت گزر جانے سے نماز ساقط نہیں ہوتی بلکہ اس کی قضاء کرنی پڑتی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ قضاء فرائض کے ساتھ خاص ہے وہ اس حدیث سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑتے ہیں، لیکن اس روایت میں فرائض کے ساتھ قضاء کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، سنتوں کی قضاء بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد إن كان محمد بن المنتشر سمع ابن مسعود وقصة النوم صحيحة
|