سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الديات
کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
The Chapters on Blood Money
4. بَابُ: مَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَرَضُوا بِالدِّيَةِ
باب: قتل عمد میں مقتول کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں تو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: One Who Is Killed Deliberately And His Heirs Accept The Blood Money.
حدیث نمبر: 2625
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني محمد بن جعفر ، عن زيد بن ضميرة ، حدثني ابي وعمي وكانا شهدا حنينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالا: صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر ثم جلس تحت شجرة، فقام إليه الاقرع بن حابس وهو سيد خندف يرد عن دم محلم بن جثامة وقام عيينة بن حصن يطلب بدم عامر بن الاضبط وكان اشجعيا، فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم:" تقبلون الدية"، فابوا، فقام رجل من بني ليث يقال له: مكيتل، فقال: يا رسول الله، والله ما شبهت هذا القتيل في غرة الإسلام إلا كغنم وردت، فرميت اولها فنفر آخرها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لكم خمسون في سفرنا، وخمسون إذا رجعنا" فقبلوا الدية.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي وَعَمِّي وَكَانَا شَهِدَا حُنَيْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ ثُمَّ جَلَسَ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَهُوَ سَيِّدُ خِنْدِفٍ يَرُدُّ عَنْ دَمِ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَةَ وَقَامَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ يَطْلُبُ بِدَمِ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ وَكَانَ أَشْجَعِيًّا، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَقْبَلُونَ الدِّيَةَ"، فَأَبَوْا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ: مُكَيْتِلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا شَبَّهْتُ هَذَا الْقَتِيلَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ إِلَّا كَغَنَمٍ وَرَدَتْ، فَرُمِيَتْ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكُمْ خَمْسُونَ فِي سَفَرِنَا، وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا" فَقَبِلُوا الدِّيَةَ.
زید بن ضمیرہ کہتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ان دونوں کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی پھر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، تو قبیلہ خندف کے سردار اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، وہ محکلم بن جثامہ سے قصاص لینے کو روک رہے تھے، عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ اٹھے، وہ عامر بن اضبط اشجعی کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ۱؎، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم دیت (خون بہا) قبول کرتے ہو؟ انہوں نے انکار کیا، پھر بنی لیث کا مکیتل نامی شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! اسلام کے شروع زمانے میں یہ قتل میں ان بکریوں کے مشابہ سمجھتا تھا جو پانی پینے آتی ہیں، پھر جب آگے والی بکریوں کو تیر مارا جاتا ہے تو پیچھے والی اپنے آپ بھاگ جاتی ہیں، ۲؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پچاس اونٹ (دیت کے) ابھی لے لو، اور بقیہ پچاس مدینہ لوٹنے پر لے لینا، لہٰذا انہوں نے دیت قبول کر لی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 3 (4503)، (تحفة الأشراف: 3824)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/112، 6/10) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں زید بن ضمیرہ مقبول ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے سند ضعیف ہے)

وضاحت:
۱؎: محلم بن جثامہ نے قبیلہ اشجع کے عامر بن اضبط کو مار ڈالا تھا، تو اقرع رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ محلم سے قصاص نہ لیا جائے اور عیینہ رضی اللہ عنہ قصاص پر زور دیتے تھے۔
۲؎: اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر (بشرط صحت حدیث) آپ ﷺ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو اس سے بہت بڑا دوسرا فساد اٹھ کھڑا ہوتا، مسلمان آپس میں لڑنے لگتے تو اس کا بندوبست ایسا ہوا جیسے بکریوں کا گلہ پانی پینے کو چلا لیکن آگے کی بکریوں کو مار کر وہاں سے ہٹا دیا گیا تو پیچھے کی بھی بکریاں بھاگ گئیں، اگر نہ مارتا تو پھر سب چلی آتیں، اسی طرح اگر آپ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہو جاتے اور فساد عظیم ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2626
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد الدمشقي ، حدثنا ابي ، حدثنا محمد بن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل عمدا، دفع إلى اولياء القتيل، فإن شاءوا قتلوا، وإن شاءوا اخذوا الدية، وذلك ثلاثون حقة وثلاثون جذعة واربعون خلفة، وذلك عقل العمد ما صولحوا عليه فهو لهم وذلك تشديد العقل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ عَمْدًا، دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَذَلِكَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، وَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ مَا صُولِحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ وَذَلِكَ تَشْدِيدُ الْعَقْلِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قصداً کسی کو قتل کر دیا، تو قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں، اور چاہیں تو دیت لے لیں، دیت (خوں بہا) میں تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں، قتل عمد کی دیت یہی ہے، اور باہمی صلح سے جو بھی طے پائے وہ مقتول کے ورثاء کو ملے گا، اور سخت دیت یہی ہے۔ ۱؎

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 18 (4541)، سنن الترمذی/الدیات 1 (1387)، (تحفة الأشراف: 8708)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/178، 182، 183، 184، 185، 186) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «حقہ» یعنی وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو گئی ہو۔ «جذعہ»: یعنی وہ اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں داخل ہو گئی ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.