كتاب الديات کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل 21. بَابُ: لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ باب: کافر کے بدلے مسلمان قتل نہ کیا جائے گا۔
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جو دیگر لوگوں کے پاس نہ ہو؟ وہ بولے: نہیں، اللہ کی قسم! ہمارے پاس وہی ہے جو لوگوں کے پاس ہے، ہاں مگر قرآن کی سمجھ جس کی اللہ تعالیٰ کسی کو توفیق بخشتا ہے یا وہ جو اس صحیفے میں ہے اس (صحیفے) میں ان دیتوں کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۱؎
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 40 (111)، الجہاد 171 (3047)، الدیات 24 (6903)، سنن الترمذی/الدیات 16 (1412)، (تحفة الأشراف: 10311)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الدیات11 (4530)، سنن النسائی/القسامة 5 (4738)، مسند احمد (1/79، 122)، سنن الدارمی/الدیات 5 (2401) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام بخاری کی روایت میں ہے کہ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی ایسی وحی ہے جو قرآن مجید میں نہ ہو؟ یعنی موجودہ قرآن میں جو سب لوگوں کے پاس ہے، اس سے شیعوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے اس میں سے چند سورتیں غائب ہیں، اور پورا قرآن نبی کریم ﷺ کے بعد علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر ہر ایک امام کے پاس آتا رہا یہاں تک کہ امام مہدی کے پاس آیا اور وہ غائب ہیں،جب ظاہر ہوں گے تو دنیا میں پورا قرآن پھیلے گا، معاذ اللہ یہ سب اکاذیب اور خرافات ہیں، حدیث میں علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر بتا دیا کہ ہمارے پاس وہی علم ہے جو اور لوگوں کے پاس ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدیات 17 (1413)، (تحفة الأشراف: 8739 ألف) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۱؎، اور نہ وہ (کافر) جس کی حفاظت کا ذمہ لیا گیا ہو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6030، ومصباح الزجاجة: 937) (وستأتي بقیتہ برقم: 2683) (صحیح)» (سند میں حنش حسین بن قیس ابو علی الرحبی ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں کافر سے مراد حربی کافر ہے، اور اہل علم کا اجماع ہے کہ مسلمان کافر حربی کے بدلے نہ مارا جائے گا۔ ۲؎: جس غیر مسلم کی حفاظت کا عہد کیا جائے اس کا قتل بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ دین اسلام میں عہدشکنی کسی حال میں جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|