(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد الدمشقي ، حدثنا ابي ، حدثنا محمد بن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل عمدا، دفع إلى اولياء القتيل، فإن شاءوا قتلوا، وإن شاءوا اخذوا الدية، وذلك ثلاثون حقة وثلاثون جذعة واربعون خلفة، وذلك عقل العمد ما صولحوا عليه فهو لهم وذلك تشديد العقل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ عَمْدًا، دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا، وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ، وَذَلِكَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً، وَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمْدِ مَا صُولِحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ وَذَلِكَ تَشْدِيدُ الْعَقْلِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قصداً کسی کو قتل کر دیا، تو قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں، اور چاہیں تو دیت لے لیں، دیت (خوں بہا) میں تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں، قتل عمد کی دیت یہی ہے، اور باہمی صلح سے جو بھی طے پائے وہ مقتول کے ورثاء کو ملے گا، اور سخت دیت یہی ہے۔ ۱؎
وضاحت: ۱؎: «حقہ» یعنی وہ اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے سال میں داخل ہو گئی ہو۔ «جذعہ»: یعنی وہ اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں داخل ہو گئی ہو۔
من قتل مؤمنا متعمدا دفع إلى أولياء المقتول فإن شاءوا قتلوا وإن شاءوا أخذوا الدية وهي ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون خلفة وما صالحوا عليه فهو لهم وذلك لتشديد العقل
من قتل عمدا دفع إلى أولياء القتيل فإن شاءوا قتلوا وإن شاءوا أخذوا الدية وذلك ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون خلفة وذلك عقل العمد ما صولحوا عليه فهو لهم وذلك تشديد العقل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2626
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قتل عمد کی صورت میں قصاص اور دیت دونوں جائز ہیں۔
(2) دیت کی مقدار میں مقتول کے وارثوں کی رضامندی سے کمی ہوسکتی ہے، اضافہ نہیں ہوسکتا۔
(3) قتل کی تین سورتیں ہیں۔
قتل عمد: اس سے مراد وہ قتل ہے جس میں حملہ آور کا مقصد قتل کرنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ تلوار یا کسی ایسے ہتھیار سے حملہ کرتا ہے جسے سے مضروب عام طور پر بچ نہیں سکتا۔ اس قتل کی صورت میں دیت کی وہ مقدار مقرر ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
قتل شبہ عمد: اس سے مراد یہ ہے کہ حملہ آور نے ایسی چیز سے حملہ کیا جس سے مضروب عام طور پر مرتا نہیں، مثلاً لاٹھی کی ضرب، حملہ آور کا مقصد چوٹ لگانا یا زخمی کرنا تھا لیکن مصروب چوٹ یا زخموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوگیا۔ اس کی دیت بھی قتل عمد کےبرابر ہے۔
قتل خطا: اس سے مراد یہ ہے کہ قاتل کا ارادہ اس کو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کا نہ تھا۔ اتفاقاً اس سے بلا ارادہ قتل ہوگیا، مثلا: کسی ہرن وغیرہ پر فائر کیا یا تیر چلایا مگر نشانہ چوک گیا، یا اچانک انسان سامنے آ گیا اور فائر یا تیر اسے جا لگا اور وہ مرگیا۔ اس کی دیت بھی سواونٹ ہی ہے لیکن ان کی عمر کم مقرر کی گئی ہے۔ اور حاملہ ہونے کی شرط نہیں ہے۔ دیکھئے، حدیث: 2630)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2626
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4506
´مقتول کا وارث دیت لینے پر راضی ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4506]
فوائد ومسائل: مومن کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا، یہ مسئلہ آگے حدیث4530 میں آرہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4506
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1387
´دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی تعداد کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا، اگر وہ چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت لیں، دیت کی مقدار تیس حقہ، تیس جذعہ اور چالیس خلفہ ۱؎ ہے اور جس چیز پر وارث مصالحت کر لیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1387]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: حاملہ اونٹنی اس کی جمع خلفات وخلائف آتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1387