كتاب الديات کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل 2. بَابُ: هَلْ لِقَاتِلِ مُؤْمِنٍ تَوْبَةٌ باب: کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دیا، پھر توبہ کر لی، ایمان لے آیا، اور نیک عمل کیا، پھر ہدایت پائی؟ تو آپ نے جواب دیا: افسوس وہ کیسے ہدایت پا سکتا ہے؟ میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ”قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حال میں آئیں گے کہ مقتول قاتل کے سر سے لٹکا ہو گا، اور کہہ رہا ہو گا“، اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ کی قسم! اس نے تمہارے نبی پر اس (قتل ناحق کی آیت) کو نازل کرنے کے بعد منسوخ نہیں کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تحریم الدم 2 (4004)، القسامة 48 (4870)، (تحفة الأشراف: 5432)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/240، 364294) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مراد اس آیت سے ہے: «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤه جهنم خالدا فيها وغضب الله عليه ولعنه وأعد له عذابا عظيما» (سورة النساء:93) یعنی ”جس شخص نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا“ ایک دوسری آیت جو بظاہر اس کے معارض ہے: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى إثما عظيما» (سورة النساء:48) یعنی ”اللہ تعالی اپنے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے شخص کو معاف نہیں کرے گا، اور جس کے لئے چاہے اس کے علاوہ گناہ کو معاف کر سکتا ہے“، دونوں آیتیں بظاہر متعارض ہیں، علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مومن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو، تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، اور وہ جہنمی ہو گا، ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آیت میں «خلود» سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے ایک نہ ایک دن اسے ضرور جہنم سے نجات ملے گی، یہ بھی جواب دیا جا سکتا ہے کہ آیت میں زجرو توبیخ مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہے، وہ بات میرے کان نے سنی، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا کہ ایک آدمی تھا جس نے ننانوے خون (ناحق) کئے تھے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، تو اسے ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس آیا، اور کہا: میں ننانوے آدمیوں کو (ناحق) قتل کر چکا ہوں، کیا اب میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: (واہ) ننانوے آدمیوں کے (قتل کے) بعد بھی (توبہ کی امید رکھتا ہے)؟ اس شخص نے تلوار کھینچی اور اسے بھی قتل کر دیا، اور سو پورے کر دئیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اور روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، اسے جب ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا تو وہ وہاں گیا، اور اس سے کہا: میں سو خون (ناحق) کر چکا ہوں، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے جواب دیا: تم پر افسوس ہے! بھلا تمہیں توبہ سے کون روک سکتا ہے؟ تم اس ناپاک اور خراب بستی سے (جہاں تم نے اتنے بھاری گناہ کئے) نکل جاؤ ۱؎، اور فلاں نیک اور اچھی بستی میں جاؤ، وہاں اپنے رب کی عبادت کرنا، وہ جب نیک بستی میں جانے کے ارادے سے نکلا، تو اسے راستے ہی میں موت آ گئی، پھر رحمت و عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں جھگڑنے لگے، ابلیس نے کہا کہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے ایک پل بھی میری نافرمانی نہیں کی، تو رحمت کے فرشتوں نے کہا: وہ توبہ کر کے نکلا تھا (لہٰذا وہ رحمت کا مستحق ہوا)۔ راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ مجھ سے حمید طویل نے حدیث بیان کی، وہ بکر بن عبداللہ سے اور وہ ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: (جب فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا تو) اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ (ان کے فیصلے کے لیے) بھیجا، دونوں قسم کے فرشتے اس کے پاس فیصلہ کے لیے آئے، تو اس نے کہا: دیکھو دونوں بستیوں میں سے وہ کس سے زیادہ قریب ہے؟ (فاصلہ ناپ لو) جس سے زیادہ قریب ہو وہیں کے لوگوں میں اسے شامل کر دو۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے حسن بصری نے حدیث بیان کی، اس میں انہوں نے کہا: جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ گھسٹ کر نیک بستی سے قریب اور ناپاک بستی سے دور ہو گیا، آخر فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شامل کر دیا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث أبي رافع تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 19505)، وحدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ صحیح البخاری/احادیث الانبیاء 54 (3470)، صحیح مسلم/التوبة 8 (6766)، (تحفة الأشراف: 3973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/20، 72) (صحیح)» (حسن کے قول «لما حضره الموت......» کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ایسی بستی جس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں، فتح الباری میں ہے کہ یہ کافروں کی بستی تھی۔ ۲؎: سبحان اللہ! اگر مالک کے رحم و کرم کو سامنے رکھا جائے تو امید ایسی بندھ جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گناہ گار کو عذاب نہ ہو گا، اور اگر اس کے غضب اور عدل اور قہر کی طرف خیال کیا جائے، تو اپنے اعمال کا حال دیکھ کر ایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ، ایمان اسی کا نام ہے کہ مومن خوف (ڈر) اور رجاء (امید) کے درمیان رہے، اگر خوف ایسا غالب ہوا کہ امید بالکل جاتی رہے تب بھی آدمی گمراہ ہو گیا، اور اگر امید ایسی غالب ہوئی کہ خوف جاتا رہا جب بھی اہل ہدایت اور اہل سنت سے باہر ہو گیا، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ (خواہ کسی قدر ہوں) پر آدمی کو توبہ کا خیال نہ چھوڑنا چاہئے اور گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، وہ ارحم الراحمین بندہ نواز ہے اور اس کا ارشاد ہے: «رحمتى سبقت غضبى» یعنی ”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“ اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: «مغفرتك أرجى عندي من عملي» یعنی ”اے رب اپنے عمل سے زیادہ مجھے تیری مغفرت کی امید ہے“ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے، گو اس میں شک نہیں کہ مومن کا قتل بہت بڑا گناہ ہے اور مومن قاتل کی جزا یہی ہے کہ اس پر عذاب الٰہی اترے دنیا یا آخرت یا دونوں میں، مگر اس حدیث اور ایسی حدیثوں کی وجہ سے جن سے امید کو ترقی ہوتی ہے یہ کوئی نہ سمجھے کہ گناہ ضرور بخش دیا جائے گا، پھر گناہ سے بچنا کیا ضروری ہے کیونکہ گناہ پر عذاب تو وعدہ الٰہی سے معلوم ہو چکا ہے اب مغفرت وہ مالک کے اختیار میں ہے بندے کو ہرگز معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں، اور اس کی مغفرت ہو گی یا نہیں، پس ایسے موہوم خیال پر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھنا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت پر تکیہ کر لینا بڑی حماقت اور نادانی ہے، ہر وقت گناہ سے بچتا رہے خصوصاً حقوق العباد سے، اور اگر بدقسمتی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو دل و جان سے اس سے توبہ کرے، اور اپنے مالک کے سامنے گڑگڑائے روئے، اور عہد کرے کہ پھر ایسا گناہ نہ کروں گا تو کیا عجب ہے کہ مالک اس کا گناہ بخش دے وہ غفور اور رحیم ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله الحسن لما حضره الموت ق
اس سند سے بھی ہمام نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله الحسن لما حضره الموت ق
|