(مرفوع) حدثنا هارون بن معروف، اخبرنا سفيان، عن هشام، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال: هذا خلق الله الخلق، فمن خلق الله، فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله". (مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، أخبرنا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ لہٰذا تم میں سے کسی کو اس سلسلے میں اگر کوئی شبہ گزرے تو وہ یوں کہے: میں اللہ پر ایمان لایا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر آدمی کو کوئی اس طرح کا شیطانی وسوسہ لاحق ہو تو اس کو دور کرنے اور ذہن سے جھٹکنے کی پوری کوشش کرے اور یوں کہے: میں اللہ پر ایمان لا چکا ہوں، صحیحین کی روایت میں ہے: میں اللہ و رسول پر ایمان لا چکا ہوں۔
Abu Hurairah reported to the Messenger of Allah ﷺ as sayings: People will continue to ask one another (questions) till this is pronounced: Allah created all things, but who created Allah ? Whoever comes across anything of that, he should say: I believe in Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4703
قال الشيخ الألباني: صحيح م خ نحوه بلفظ فليتعذ بالله ولينته
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، پھر اس جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں ہے، آپ نے فرمایا: ”جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو: «الله أحد * الله الصمد * لم يلد ولم يولد * ولم يكن له كفوا أحد»”اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے ۱؎، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے“ پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، سنن النسائی/ عمل الیوم واللیة (661)، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 14978) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: احد وہ ہے جس کا کوئی مثیل و نظیر نہ ہو، صمد وہ کہ سب اس کے محتاج ہوں وہ بے نیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں۔
Narrated Abu Hurairah: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: He then mentioned a tradition like it. This version adds: When they propound that, say: "Say Allah is one. Allah is He to Whom men repair. He has not begotten and He has not been begotten, and no one is equal to Him. " Then one should spit three times on his left side and seek refuge in Allah from Satan.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4704
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح البزاز، اخبرنا الوليد بن ابي ثور، عن سماك، عن عبد الله بن عميرة، عن الاحنف بن قيس، عن العباس بن عبد المطلب، قال:" كنت في البطحاء في عصابة فيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمرت بهم سحابة، فنظر إليها، فقال: ما تسمون هذه؟ , قالوا: السحاب، قال: والمزن , قالوا: والمزن، قال: والعنان، قالوا: والعنان , قال ابو داود: لم اتقن العنان جيدا، قال: هل تدرون ما بعد ما بين السماء والارض؟ قالوا: لا ندري، قال: إن بعد ما بينهما: إما واحدة، او اثنتان، او ثلاث وسبعون سنة، ثم السماء فوقها كذلك حتى عد سبع سماوات، ثم فوق السابعة بحر بين اسفله واعلاه مثل ما بين سماء إلى سماء، ثم فوق ذلك ثمانية اوعال بين اظلافهم وركبهم مثل ما بين سماء إلى سماء، ثم على ظهورهم العرش ما بين اسفله واعلاه مثل ما بين سماء إلى سماء، ثم الله تبارك وتعالى فوق ذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، أخبرنا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ:" كُنْتُ فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّتْ بِهِمْ سَحَابَةٌ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ؟ , قَالُوا: السَّحَابَ، قَالَ: وَالْمُزْنَ , قَالُوا: وَالْمُزْنَ، قَالَ: وَالْعَنَانَ، قَالُوا: وَالْعَنَانَ , قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ أُتْقِنْ الْعَنَانَ جَيِّدًا، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟ قَالُوا: لَا نَدْرِي، قَالَ: إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا: إِمَّا وَاحِدَةٌ، أَوِ اثْنَتَانِ، أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، ثُمَّ السَّمَاءُ فَوْقَهَا كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ، ثُمَّ فَوْقَ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِمْ وَرُكَبِهِمْ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِمُ الْعَرْشُ مَا بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ".
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا ان کے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا: ”تم اسے کیا نام دیتے ہو؟“ لوگوں نے عرض کیا: «سحاب»(بادل)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور «مزن» بھی“ لوگوں نے کہا: ہاں «مزن» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور «عنان» بھی“ لوگوں نے عرض کیا: اور «عنان» بھی، (ابوداؤد کہتے ہیں: «عنان» کو میں اچھی طرح ضبط نہ کر سکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ہمیں نہیں معلوم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے، پھر اسی طرح اس کے اوپر آسمان ہے“ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آسمان گنائے ”پھر ساتویں کے اوپر ایک سمندر ہے جس کی سطح اور تہہ میں اتنی دوری ہے جتنی کہ ایک آسمان اور دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے ہیں جن کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی لمبائی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری ہے، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے، جس کے نچلے حصہ اور اوپری حصہ کے درمیان کی مسافت اتنی ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر الحاقة 67 (3320)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (193)، (تحفة الأشراف: 5124)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/206، 207) (ضعیف)» (اس کے راوی عبداللہ بن عمیرہ لین الحدیث ہیں)
Narrated Al-Abbas ibn Abdul Muttalib: I was sitting in al-Batha with a company among whom the Messenger of Allah ﷺ was sitting, when a cloud passed above them. The Messenger of Allah ﷺ looked at it and said: What do you call this? They said: Sahab. He said: And muzn? They said: And muzn. He said: And anan? They said: And anan. Abu Dawud said: I am not quite confident about the word anan. He asked: Do you know the distance between Heaven and Earth? They replied: We do not know. He then said: The distance between them is seventy-one, seventy-two, or seventy-three years. The heaven which is above it is at a similar distance (going on till he counted seven heavens). Above the seventh heaven there is a sea, the distance between whose surface and bottom is like that between one heaven and the next. Above that there are eight mountain goats the distance between whose hoofs and haunches is like the distance between one heaven and the next. Then Allah, the Blessed and the Exalted, is above that.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4705
The tradition mentioned above has again been transmitted by Simak through a different chain of narrators and to the same effect as this lengthy tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4707
(مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن حماد، ومحمد بن المثنى، واحمد بن سعيد الرباطي، قالوا: اخبرنا وهب بن جرير، قال احمد: كتبناه من نسخته، وهذا لفظه، قال: حدثنا ابي، قال: سمعت محمد بن إسحاق يحدث، عن يعقوب بن عتبة، عن جبير بن محمد بن جبير بن مطعم، عن ابيه، عن جده، قال:" اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم اعرابي، فقال: يا رسول الله، جهدت الانفس، وضاعت العيال، ونهكت الاموال، وهلكت الانعام، فاستسق الله لنا، فإنا نستشفع بك على الله، ونستشفع بالله عليك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويحك، اتدري ما تقول؟ , وسبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما زال يسبح حتى عرف ذلك في وجوه اصحابه، ثم قال: ويحك، إنه لا يستشفع بالله على احد من خلقه، شان الله اعظم من ذلك، ويحك، اتدري ما الله؟ إن عرشه على سماواته لهكذا، وقال باصابعه مثل القبة عليه، وإنه ليئط به اطيط الرحل بالراكب" , قال ابن بشار في حديثه: إن الله فوق عرشه، وعرشه فوق سماواته , وساق الحديث، وقال عبد الاعلى، وابن المثنى، وابن بشار، عن يعقوب بن عتبة، وجبير بن محمد بن جبير، عن ابيه، عن جده، قال ابو داود: والحديث بإسناد احمد بن سعيد هو الصحيح، ووافقه عليه جماعة منهم: يحيى بن معين وعلي بن المديني، ورواه جماعة، عن ابن إسحاق، كما قال احمد ايضا، وكان سماع عبد الاعلى، وابن المثنى، وابن بشار من نسخة واحدة فيما بلغني. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، قَالُوا: أخبرنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ أَحْمَدُ: كَتَبْنَاهُ مِنْ نُسْخَتِهِ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاق يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جُهِدَتِ الْأَنْفُسُ، وَضَاعَتِ الْعِيَالُ، وَنُهِكَتِ الْأَمْوَالُ، وَهَلَكَتِ الْأَنْعَامُ، فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا، فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِكَ عَلَى اللَّهِ، وَنَسْتَشْفِعُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْحَكَ، أَتَدْرِي مَا تَقُولُ؟ , وَسَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَالَ يُسَبِّحُ حَتَّى عُرِفَ ذَلِكَ فِي وُجُوهِ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ، شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَيْحَكَ، أَتَدْرِي مَا اللَّهُ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا، وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مِثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ، وَإِنَّهُ لَيَئِطُّ بِهِ أَطِيطَ الرَّحْلِ بِالرَّاكِبِ" , قال ابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ، وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ , وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى، وَابْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ أبو داود: وَالْحَدِيثُ بِإِسْنَادِ أَحْمَدَ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ الصَّحِيحُ، ووَافَقَهُ عَلَيْهِ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ: يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَرَوَاهُ جَمَاعَةٌ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، كَمَا قَالَ أَحْمَدُ أَيْضًا، وَكَانَ سَمَاعُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَابْنِ الْمُثَنَّى، وَابْنِ بَشَّارٍ مِنْ نُسْخَةٍ وَاحِدَةٍ فِيمَا بَلَغَنِي.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! لوگ مصیبت میں پڑ گئے، گھربار تباہ ہو گئے، مال گھٹ گئے، جانور ہلاک ہو گئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے بارش کی دعا کیجئے، ہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں اللہ کے دربار میں، اور اللہ کو سفارشی بناتے ہیں آپ کے دربار میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا برا ہو، سمجھتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ کہنے لگے، اور برابر کہتے رہے یہاں تک کہ اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں پر دیکھا گیا، پھر فرمایا: ”تمہارا برا ہو اللہ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے دربار میں سفارشی نہیں بنایا جا سکتا، اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے، تمہارا برا ہو! کیا تم جانتے ہو اللہ کیا ہے، اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے (آپ نے انگلیوں سے گنبد کے طور پر اشارہ کیا) اور وہ چرچراتا ہے جیسے پالان سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے، (ابن بشار کی حدیث میں ہے) اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے، اور اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے“ اور پھر پوری حدیث ذکر کی۔ عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار تینوں نے یعقوب بن عتبہ اور جبیر بن محمد بن جبیر سے ان دونوں نے محمد بن جبیر سے اور محمد بن جبیر نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے۔ البتہ احمد بن سعید کی سند والی حدیث ہی صحیح ہے، اس پر ان کی موافقت ایک جماعت نے کی ہے، جس میں یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی شامل ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے جیسا کہ احمد بن سعید نے بھی کہا ہے، اور عبدالاعلی، ابن مثنی اور ابن بشار کا سماع جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے، ایک ہی نسخے سے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3196) (ضعیف)» (ابن اسحاق مدلس ہیں، نیز سند میں اختلاف ہے)
Muhammad bin Jubair bin Mutim said from his father on the authority of his grandfather: An A’rab (a nomadic Arab) came to the Messenger of Allah ﷺ and said: People suffering distress, the children are hungry, the crops are withered, and the animals are perished, so ask Allah to grant us rain, for we seek you as our intercessor with Allah, and Allah as intercessor with you. The Messenger of Allah ﷺ said: Woe to you: Do you know what you are saying? Then the Messenger of Allah ﷺ declared Allah’s glory and he continued declaring His glory till the effect of that was apparent in the faces of his Companions. He then said: Woe to you: Allah is not to be sought as intercessor with anyone. Allah’s state is greater than that. Woe to you! Do you know how great Allah is? His throne is above the heavens thus (indicating with his fingers like a dome over him), and it groans on account of Him as a saddle does because of the rider. Ibn Bashshar said in his version: Allah is above the throne, and the throne is above the heavens. He then mentioned the rest of the tradition. Abd al-A’la, Ibn al- Muthana and Ibn Bashshar transmitted it from Ya’qub bin ‘Utbah and Jubair bin Muhammad bin Jubair from his father on the authority of his grandfather. Abu Dawud said: This tradition with the chain of Ahmad bin Saad is sound. It has been approved by the body (of traditionists), which includes Yahya bin Ma’in and Ali bin al-Madani, and a group has transmitted it from Ibn Ishaq, as Ahmad also said. And so far as I have been informed Abd al-A’la, Ibn al-Muthanna, and Ibn Bashshar had heard from the same copy (of the collection of tradition).
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4708
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: عمدہ گھوڑے کی چال سے جیسا کہ دوسری حدیث میں مروی ہے، اس حدیث کا مقصود حاملین عرش کا طول و عرض اور عظمت و جثہ بتانا ہے، اور ستر کا عدد بطور تحدید نہیں ہے بلکہ اس سے کثرت مراد ہے۔
Jabir bin Abdullah reported the Prophet ﷺ as saying: I have been permitted to tell about one of Allah’s angels who bears the throne that the distance between the lobe of his ear and his shoulder is a journey of seven hundred years.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4709
(مرفوع) حدثنا علي بن نصر، ومحمد بن يونس النسائي المعنى، قالا: انبانا عبد الله بن يزيد المقرئ، اخبرنا حرملة يعني ابن عمران، حدثني ابو يونس سليم بن جبير مولى ابي هريرة، قال: سمعت ابا هريرة يقرا هذه الآية:" إن الله يامركم ان تؤدوا الامانات إلى اهلها إلى قوله تعالى سميعا بصيرا سورة النساء آية 58، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع إبهامه على اذنه، والتي تليها على عينه"، قال ابو هريرة: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها ويضع إصبعيه، قال ابن يونس: قال المقرئ: يعني إن الله سميع بصير: يعني ان لله سمعا وبصرا , قال ابو داود: وهذا رد على الجهمية. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ المعنى، قَالَا: أنبأنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أخبرنا حَرْمَلَةُ يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ:" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى سَمِيعًا بَصِيرًا سورة النساء آية 58، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَى أُذُنِهِ، وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَى عَيْنِهِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: قَالَ الْمُقْرِئُ: يَعْنِي إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ: يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا , قال أَبُو دَاوُد: وَهَذَا رَدٌّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو یونس سلیم بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آیت کریمہ «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها *** إلى قوله تعالى *** سميعا بصيرا»”اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو۔۔۔ اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے“(سورۃ النساء: ۵۸) تک پڑھتے سنا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے انگوٹھے کو اپنے کان پر اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو آنکھ پر رکھتے، (یعنی شہادت کی انگلی کو)، ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے پڑھتے اور اپنی دونوں انگلیوں کو رکھتے دیکھا۔ ابن یونس کہتے ہیں: عبداللہ بن یزید مقری نے کہا: یعنی «إن الله سميع بصير» پر انگلی رکھتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کان اور آنکھ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ جہمیہ کا رد ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں جہمیہ کا رد بلیغ ہے، جہمیہ اللہ کے لئے صفت سمع و بصر کی نفی کرتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا اور انگلی رکھ کر ان کی تردید فرما دی، جہمیہ تشبیہ سے بچنے کے لئے ایسا کہتے ہیں، جب کہ اس میں تشبیہ ہے ہی نہیں، مقصود صفت سمع (سننا) صفت بصر (دیکھنا) کا اثبات ہے، یہ مقصود نہیں کہ اس کی آنکھ وکان ہماری آنکھ اور کان جیسے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ کان اس کی عظمت وجلال کے لائق ہیں، بلا کسی کیفیت تشبیہ، وتمثیل اور تعطیل کے سبحانہ تعالیٰ۔
Abu Yunus Sulaim bin Jubair, client of Abu Hurairah, said: I heard Abu Hurairah recite this verse: “Allah doth command you to render back your trusts to those to whom they are due” up to “For Allah is he who heareth and seeth all things”. He said: I saw the Messenger of Allah ﷺ putting his thumb on his ear and finger on his eye. Abu Hurairah said: I saw the Messenger of Allah ﷺ reciting this verse and putting his fingers. Ibn Yunus said that al-Muqri said. “Allah hears and sees” means that Allah has the power of hearing and seeing. Abu Dawud said: This is a refutation of the Jahmiyyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4710