كِتَاب السُّنَّةِ کتاب: سنتوں کا بیان 15. باب فِي رَدِّ الإِرْجَاءِ باب: ارجاء کی تردید کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ”لا إله إلا الله“ کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 3 (9)، صحیح مسلم/الإیمان 12 (35)، سنن الترمذی/الإیمان 6 (2614)، سنن النسائی/الإیمان 16 (5007، 5008، 5009)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (57)، (تحفة الأشراف: 12816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/414، 442، 445) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «ارجاء» کے معنی تاخیر کے ہیں اسی سے فرقہ مرجئہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں، اور کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، یہ قدیم گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے، اس کی تردید میں محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس کتاب میں بھی ان کا رد و ابطال مقصود ہے، ان کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء نہیں، بلکہ ایمان محض تصدیق اور اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت و اہل حدیث کے یہاں ایمان کے ارکان تین ہیں، دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء و جوارح سے عملی ثبوت فراہم کرنا۔ ۲؎: بعض نسخوں میں «عظم» کے بجائے «اذی» کا لفظ ہے گویا کوئی بھی تکلیف دہ چیز۔ ۳؎: حدیث سے ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سے مومن کو فائدہ اور اعمال بد سے نقصان اور ضرر ہوتا ہے، جب کہ مرجئہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو: ایمان باللہ کیا ہے؟“ وہ بولے: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے رکھنا، اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 40 (53)، العلم 25 (87)، المواقیت 2 (523)، الزکاة 1 (1398)، فرض الخمس 2 (3095)، المناقب 5 (3510)، المغازي 69 (4368)، الأدب 98 (6176)، خبر الواحد 5 (7266)، التوحید 56 (7556)، صحیح مسلم/الإیمان 6 (17)، الأشربة 6 (1995)، سنن الترمذی/السیر 39 (1599)، الإیمان 5 (2611)، سنن النسائی/الإیمان 25 (5036)، (تحفة الأشراف: 6524)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1 /128، 274، 291، 304، 334، 340، 352، 361)، وقد مضی ہذا الحدیث برقم: (3692) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا ترک کرنا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 9 (2620)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 77 (1078)، مسند احمد (3/370، 389)، (تحفة الأشراف: 2746)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 35 (82) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز حد فاصل ہے، اگر نماز ادا کرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے تو کافر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے نماز کے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”نماز کا ترک کرنا کفر ہے“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو نماز چھوڑ دے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تارک نماز مرتد ہے اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا، اصحاب الرای کا مذہب ہے کہ اس کو قید کیا جائے تاوقتیکہ نماز پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک نماز کو کافر کہتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے نماز کا سخت اہتمام کرنا چاہئے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت، اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا“ (ایک عورت) نے کہا: عقل اور دین میں کیا نقص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، اور دین کا نقص یہ ہے کہ (حیض و نفاس میں) تم میں کوئی نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 34 (79)، سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4003)، (تحفة الأشراف: 7261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/66) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اس مدت میں نماز و روزے کے ترک سے ایمان میں نقص ثابت ہوا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|