كِتَاب السُّنَّةِ کتاب: سنتوں کا بیان 31. باب فِي قِتَالِ الْخَوَارِجِ باب: خوارج سے قتال کا بیان۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جماعت ۲؎ سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، أبوداود، (تحفة الأشراف: 11908)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/180) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خوارج جمع ہے خارجی کی، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے، یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے پھر ان کے لشکر سے نکل کر فاسد عقیدے اختیار کئے اور آپ کے خلاف قتال کیا، ان کا عقیدہ ہے: کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، یہ لوگ علی،عثمان، معاویہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہم کی تکفیر کرتے ہیں، علی اور معاویہ نے ان لوگوں سے قتال کیا اور ان کے فتنہ کا سد باب کیا۔ ۲؎: امام جماعت سے یا مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ سے علیحدگی اختیار کی وہ گمراہی و ہلاکت کا شکار ہوا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہو گا ۱؎ جب میرے بعد حکمراں اس مال فے کو اپنے لیے مخصوص کر لیں گے“ میں نے عرض کیا: تب تو اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا، پھر اس سے ان کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں یا آ ملوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11908)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/179، 180) (ضعیف)» (اس کے راوی خالد بن وھبان مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: تم کیا کرو گے؟ صبر کرو گے یا قتال۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف (نیک اعمال) ہوتے بھی دیکھو گے اور منکر (خلاف شرع امور) بھی دیکھو گے، تو جس نے منکر کا انکار کیا، (ابوداؤد کہتے ہیں: ہشام کی روایت میں «بلسانہ» کا لفظ بھی ہے (جس نے منکر کا) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتہ جس نے اس کام کو پسند کیا اور اس کی پیروی کی تو وہ بچ نہ سکے گا“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟ (سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے: کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 16 (1854)، سنن الترمذی/الفتن 78 (2265)، (تحفة الأشراف: 18166)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/295، 302، 305، 321) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: منکر اور خلاف شرع کام کا انکار کرنا زبان سے نفاق سے براءت دلاتا ہے، اور جو شخص دل سے برا جانتا اور اس میں شریک نہیں ہوتا وہ گناہ سے بچ جاتا ہے، لیکن جو پسند کرے اور اس میں شریک ہو تو وہ انہی جیسا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ناپسند کیا تو وہ بری ہو گیا اور جس نے کھل کر انکار کر دیا تو وہ محفوظ ہو گیا“ قتادہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جس نے دل سے اس کا انکار کیا اور جس نے دل سے اسے ناپسند کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 18166) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 14 (1852)، سنن النسائی/المحاربة 6 (4025)، (تحفة الأشراف: 9896)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/24) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|