(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو انفق احدكم مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہو گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کہ ایک بار عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ کہا سنی ہو گئی جس پر خالد نے عبدالرحمن کو کچھ نامناسب الفاظ کہہ دیئے، جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، اس سے پتہ چلا کہ مخصوص اصحاب کے مقابلہ میں دیگر صحابہ کرام کا یہ حال ہے تو غیر صحابی کا کیا ذکر، غیر صحابی کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا صحابی کے ایک مُد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا، اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام عالی کا پتہ چلتا ہے، اور یہیں سے ان بدبختوں کی بدبختی اور بدنصیبی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جن کے مذہب کی بنیاد صحابہ کرام کو سب وشتم کا نشانہ بنانا اور تبرا بازی کو دین سمجھنا ہے۔
Abu Saeed (al-Khudri) reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not revile my Companions; by him in whose hand my soul is, if one of you contributed the amount of gold equivalent to Uhud, it would not amount to as much as the mudd of one of them, or half of it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4641
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زائدة بن قدامة الثقفي، حدثنا عمر بن قيس الماصر، عن عمرو بن ابي قرة، قال:" كان حذيفة بالمدائن، فكان يذكر اشياء قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم لاناس من اصحابه في الغضب، فينطلق ناس ممن سمع ذلك من حذيفة، فياتون سلمان فيذكرون له قول حذيفة، فيقول سلمان: حذيفة اعلم بما يقول، فيرجعون إلى حذيفة، فيقولون له: قد ذكرنا قولك لسلمان فما صدقك ولا كذبك، فاتى حذيفة سلمان وهو في مبقلة، فقال: يا سلمان ما يمنعك ان تصدقني بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال سلمان: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغضب، فيقول في الغضب لناس من اصحابه، ويرضى فيقول في الرضا لناس من اصحابه: اما تنتهي حتى تورث رجالا حب رجال، ورجالا بغض رجال، وحتى توقع اختلافا وفرقة، ولقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب فقال: ايما رجل من امتي سببته سبة او لعنته لعنة في غضبي، فإنما انا من ولد آدم اغضب كما يغضبون، وإنما بعثني رحمة للعالمين، فاجعلها عليهم صلاة يوم القيامة، والله لتنتهين او لاكتبن إلى عمر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ:" كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ، فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ، فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ، فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْضَبُ، فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ، وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ، وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً، وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي، فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ، وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ".
عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے: حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے: ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے: اے سلمان! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں؟ تو سلمان نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ”میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو (اے اللہ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے“ اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب (امیر المؤمنین) کو لکھ بھیجوں گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/437، 439) (صحیح)»
Amr bin Abl Qurrah said: Hudhaifah was in al-Mada’in. He used to mention things which the Messenger of Allah ﷺ said to some people from among his Companions in anger. The people who heard from Hudhaifah would go to Salman and tell him what Hudhaifah said. Salman would say: Hudhaifah knows best what he says. Then they would come to Hudhaifah and tell him: We mentioned Salman what you said, but he neither testified you nor falsified you. So Hudhaifah came to salman who was in his vegetable farm, and said: Salman, what prevents you from testifying me of what I heard from the Messenger of Allah ﷺ ? Salman said: The Messenger of Allah ﷺ sometimes would be angry, and said in anger something to some of his Companions; he would be sometimes pleased and said in pleasure something to some of his Companions. Would you not stop until you create love of some people in the hearts of some people, and hatred of some people in the hearts of some people, and until you generate disagreement and dissension? You know that the Messenger of Allah ﷺ addressed, saying: If I abused any person of my people, or cursed him in my anger. I am one of the children of Adam: I become angry as they become angry. He (Allah) has sent me as a mercy for all worlds. (O Allah!) make them (Abuse or curse) blessing for them on the day of judgment! I swear by Allah. You should stop (mentioning these traditions), otherwise I shall writ to Umar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4642