كِتَاب السُّنَّةِ کتاب: سنتوں کا بیان 16. باب الدَّلِيلِ عَلَى زِيَادَةِ الإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ باب: ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (نماز میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا کیا ہو گا جو مر گئے، اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وما كان الله ليضيع إيمانكم» ”ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی نماز ضائع فرما دے“ (البقرہ: ۱۴۳) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 3 (2964)، (تحفة الأشراف: 6108)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/295، 304، 347) (صحیح) (صحیح بخاری کی براء رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس آیت میں نماز کو اللہ تعالیٰ نے ایمان قرار دیا ہے، کیونکہ سوال ان صلاتوں کے بارے میں تھا جو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کی گئی تھیں، اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتقال بھی کر چکے تھے تو اللہ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی نمازیں ضائع نہیں کرے گا، پس ایمان سے مراد نماز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4903) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گویا ان اعمال کی کمی ایمان کی کمی ٹھہری، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے بہتر اخلاق والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15109)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الرضاع 11 (1162)، مسند احمد (2/472، 527) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلم ہے“ سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: ”یا مسلم ہے“ پھر آپ نے فرمایا: ”میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ ڈال دیئے جائیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 19(27)، الزکاة 53 (1478)، صحیح مسلم/الإیمان 67 (150)، الزکاة 45 (150)، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ 7 (4995)، (تحفة الأشراف: 3891) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ شخص پکا سچا مومن ہے اگر میں اس کو نہ دوں گا تو بھی اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن یہ لوگ جن کو دیتا ہوں ناقص ایمان والے ہیں نہ دوں گا تو ان کے ایمان میں فرق پڑے گا کہ ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں، لہٰذا مصلحتا میں ایسا کرتا ہوں، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن شہاب زہری آیت کریمہ «قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا» ”آپ کہہ دیجئیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ مسلمان ہوئے“ (سورۃ الحجرات: ۱۴) کی تفسیر میں کہتے ہیں: ہم سمجھتے ہیں کہ (اس آیت میں) اسلام سے مراد زبان سے کلمے کی ادائیگی اور ایمان سے مراد عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19377) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں کچھ تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا: فلاں کو بھی دیجئیے، وہ بھی مومن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلم ہے، میں ایک شخص کو کچھ عطا کرتا ہوں حالانکہ اس کے علاوہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے (جس کو نہیں دیتا) اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کو نہ دوں تو وہ اوندھے منہ (جہنم میں) ڈال دیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (4683)، (تحفة الأشراف: 3891) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «* تخريج:صحیح البخاری/المغازي 77 (4402)، الأدب 95 (6166)، الحدود 9 (6785)، الدیات 2 (6868)، الفتن 8 (7077)، صحیح مسلم/الإیمان 29 (66)، سنن النسائی/المحاربة 25 (4130)، سنن ابن ماجہ/الفتن 5 (2943)، (تحفة الأشراف: 7418)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/85، 87، 104، 135) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ایک دوسرے کی گردن مارنے کو ایمان کے منافی قرار دیا، حدیث کا معنی یہ ہے کہ: میرے بعد فرقہ بندی میں پڑ کر ایک دوسرے کی گردن مت مارنے لگ جانا کہ یہ کام کافروں کے مشابہ ہے کیونکہ کافر آپس میں دشمن اور مومن آپس میں بھائی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے (تو کوئی بات نہیں) ورنہ وہ (قائل) خود کافر ہو جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8254)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 73 (6104)، صحیح مسلم/الإیمان 26 (111)، سنن الترمذی/الإیمان 16 (1237)، مسند احمد (2/23، 60) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 24 (34)، المظالم 17 (2459)، الجزیة 17 (3178)، صحیح مسلم/الإیمان 25 (58)، سنن الترمذی/الإیمان 14 (2632)، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ20 (5023)، (تحفة الأشراف: 8931)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/189، 198، 200) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا (یعنی ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر بعد میں واپس آ جاتا ہے) توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے“ (یعنی اگر توبہ کر لے تو توبہ قبول ہو جائے گی اللہ بخشنے والا ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 30 (2475)، الأشربة 1 (5578)، الحدود 1 (6772)، صحیح مسلم/الإیمان 23 (57)، سنن الترمذی/الإیمان 11 (2625)، سنن النسائی/قطع السارق 1 (4874)، الأشربة 42 (5662، 5663)، (تحفة الأشراف: 14863، 12489)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الأشربة 11 (2152)، الأضاحی 23 (2037) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور بادل کے ٹکڑے کی طرح اس کے اوپر لٹکا رہتا ہے، پھر جب زنا سے الگ ہوتا ہے تو دوبارہ ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13079) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|