كِتَاب السُّنَّةِ کتاب: سنتوں کا بیان 13. باب مَا يَدُلُّ عَلَى تَرْكِ الْكَلاَمِ فِي الْفِتْنَةِ باب: فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا“۔ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 9 (27004)، المناقب 25 (3629)، فضائل الصحابة 22 (3746)، الفتن 20 (7109)، سنن الترمذی/المناقب 31 (3773)، سنن النسائی/الجمعة 27 (1411)، (تحفة الأشراف: 11658)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5 /37، 44، 49، 51) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ پیشین گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور ایک عظیم فتنہ کو ختم کر دیا یہ سال اتحاد ملت کا سال تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
رواه البخاري (3629)
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کو فتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کا خوف نہ ہو، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف ھشام بن حسان مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 164
ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ نے کہا: میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملے، ہم نے ان سے پوچھا (کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں؟) تو فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے، اس لیے جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور معاملہ واضح اور صاف نہ ہو جائے شہر کو نہیں جاؤں گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» (اس کے راوی ثعلبہ یا ضبیعہ مجہول ہیں لیکن سابقہ حدیث کی تقویت سے صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف ثعلبة بن ضبيعة ھو ضبيعة بن حصين: مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده انوار الصحيفه، صفحه نمبر 164
ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» (ثعلبہ بن ضبیعہ اور ضبیعہ بن حصین ایک ہی ہیں جو مجہول ہیں اور سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (4664) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 164
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے لیے) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں، وہ بولے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10258)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/142، 148) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
تقدم (4530) وللحديث شواھد
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہو گا قتل کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 47 (1064)، (تحفة الأشراف: 44370)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/32، 97) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1065)
|