كِتَاب السُّنَّةِ کتاب: سنتوں کا بیان 18. باب فِي ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ باب: کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو کیا عمل کرتے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 92 (1383)، والقدر 3 (6597)، صحیح مسلم/القدر 6 (2660)، سنن النسائی/الجنائز 60 (1954)، (تحفة الأشراف: 5449)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/215، 328، 340، 358) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مومنوں کے بچوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور مشرکین کے بچے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ماں باپ کے حکم میں ہوں گے“ میں نے عرض یا بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16284)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/84) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال ان بچوں کے متعلق تھا جو قبل بلوغت انتقال کر گئے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے، اگرچہ ان سے کوئی کفر یا نیک عمل صادر نہ ہوا، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو کیا کرتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کا ایک بچہ نماز پڑھنے کے لیے لایا گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زندگی کے مزے تو اس بچے کے لیے ہیں، اس نے نہ کوئی گناہ کیا اور نہ ہی وہ اسے (گناہ کو) سمجھتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! کیا تم ایسا سمجھتی ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے اور جنت کو ان لوگوں کے لیے جب بنایا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اور جہنم کو پیدا کیا اور اس کے لیے لوگ بھی پیدا کئے گئے اور جہنم کو ان لوگوں کے لیے پیدا کیا جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القدر 6 (2662)، سنن النسائی/الجنائز 58 (1949)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (82)، (تحفة الأشراف: 17873)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/41، 208) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلا دلیل کسی کو جنتی کہنا درست نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ تو اللہ نے انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی کر دیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث مندرجہ بالا حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مر جائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا اور بس، بعض نے کہا:یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا ڈالتے ہیں، جیسے اونٹ صحیح و سالم جانور سے پیدا ہوتا ہے تو کیا تمہیں اس میں کوئی کنکٹا نظر آتا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو بچپنے میں مر جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 92 (1383)، والقدر 3 (6592)، صحیح مسلم/القدر 6 (2658)، سنن النسائی/الجنائز 60 (1951)، سنن الترمذی/القدر 5 (2138)، (تحفة الأشراف: 13857)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (52)، مسند احمد (2/244، 253، 259، 268، 315، 347، 393، 471، 488، 518) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے مالک کو کہتے سنا، ان سے پوچھا گیا: اہل بدعت (قدریہ) اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں؟ مالک نے کہا: تم حدیث کے آخری ٹکڑے سے ان کے خلاف استدلال کرو، اس لیے کہ اس میں ہے: صحابہ نے پوچھا کہ بچپن میں مرنے والے کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19253) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
حجاج بن منہال کہتے کہ میں نے حماد بن سلمہ کو «كل مولود يولد على الفطرة» ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے“ ۱؎ کی تفسیر کرتے سنا، آپ نے کہا: ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ نے ان سے اسی وقت لے لیا تھا، جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے، اللہ نے ان سے پوچھا تھا: «ألست بربكم قالوا بلى» ”کیا میں تمہارا رب (معبود) نہیں ہوں؟“ تو انہوں نے کہا تھا: کیوں نہیں، ضرور ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18591) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی تاویل اس طرح بیان فرمائی کہ چونکہ میثاق الٰہی کے مطابق ہر ایک نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا، لہٰذا اسی اقرار پر وہ پیدا ہوتا ہے، بعد میں لوگ اس کو یہودی، نصرانی، مجوسی یا مشرک بنا لیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
عامر شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وائدہ» (زندہ درگور کرنے والی) اور «مؤودہ» (زندہ درگور کی گئی دونوں) جہنم میں ہیں“ ۱؎۔ یحییٰ بن زکریا کہتے ہیں: میرے والد نے کہا: مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا ہے کہ عامر شعبی نے ان سے اسے بیان کیا ہے، وہ علقمہ سے اور علقمہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور ابن مسعود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9466) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «وائدہ» اور «مؤودہ» سے کیا مراد ہے؟ بعض محدثین نے «وائدہ» سے زندہ درگور کرنے والی عورت، اور «مؤودہ» سے زندہ درگور کی گئی بچی مراد لی ہے، اس صورت میں ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک خاص بچی کے بارے میں فرمایا، یہ حکم عام نہیں ہے، بعض محدثین کے نزدیک «وائدہ» سے مراد زندہ درگور کرنے والی عورت، اور «مؤودہ» سے مراد وہ عورت ہے جو اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے پر راضی ہو، اس صورت میں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد جہنم میں ہیں“ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 88 (203)، (تحفة الأشراف: 327)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 268) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے صاف ظاہر ہے اہل فترہ (عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے لوگ) اگر مشرک ہیں تو جہنمی ہیں، کیونکہ ان کو دعوت ابراہیمی پہنچی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے بارے میں یہ حدیث نص صریح ہے، علامہ سیوطی وغیرہ نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندہ فرمایا، یا وہ ایمان لائے اور پھر مر گئے،تو یہ محض موضوع من گھڑت روایات پر مبنی ہے، ائمہ حدیث مثلا دارقطنی، جورقانی، ابن شاہین، ابن عساکر، ابن ناصر، ابن الجوزی، سہیلی، قرطبی، محب الطبری، ابن سیدالناس، ابراہیم الحلبی وغیرہم نے ان احادیث کو مکذوب مفتری اور موضوع قرار دیا ہے، علامہ ابراہیم حلبی نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے، اسی طرح ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں اور ایک مستقل کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کی بات غلط محض ہے، علی کل حال اس مسئلہ میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیئے بلکہ اپنی نجات کی فکر کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان ابن آدم (انسان) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 9 (2174)، (تحفة الأشراف: 328)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/125، 156، 285) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منکرین تقدیر کے پاس نہ بیٹھو اور نہ ہی ان سے بات چیت میں پہل کرو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (4710)، (تحفة الأشراف: 10669) (ضعیف)» (اس کے راوی حکیم بن شریک ہذلی مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: جہمیہ: اہل بدعت کا ایک مشہور فرقہ ہے جو اللہ کی صفات کا منکر ہے اور قرآن کو مخلوق کہتا ہے، ائمہ دین کی بہت بڑی تعداد نے ان کی تکفیر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|