انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان ابن آدم (انسان) کے بدن میں اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح خون رگوں میں گردش کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 9 (2174)، (تحفة الأشراف: 328)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/125، 156، 285) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4719
فوائد ومسائل: انسان کے جسم میں شیطان کی گردش کا نتیجہ اوہام، وساوس اور اللہ تعالی کی نافرمانی کی صورت میں سامنے آتا ہے، اس کے فتنوں سے بچنے کا واحد ذریعہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ساتھ کثرت ذکر کرے، ورنہ اس کے حملوں سے بچنا بہت مشکل ہے اور سب عزوجل کی تقدیر اور مشیت سے ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4719
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 68
´ہم زاد` «. . . وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الانسان مجْرى الدَّم» . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح جاری ہے جس طرح خون تمام رگوں میں جاری ہے۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 68]
تخریج: [صحیح مسلم 5678]
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے جسم میں جن داخل ہو سکتا ہے اور اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ➋ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے۔ بخاری [2038] اور مسلم [5679] نے اس مفہوم کی روایت سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا سے بیان کر رکھی ہے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 68
´انسان کے جسم میں جن داخل ہونا` «. . . وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الانسان مجْرى الدَّم» . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح جاری ہے جس طرح خون تمام رگوں میں جاری ہے۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 68]
تخریج: [صحیح مسلم 5678]
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے جسم میں جن داخل ہو سکتا ہے اور اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ➋ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے۔ بخاری [2038] اور مسلم [5679] نے اس مفہوم کی روایت سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا سے بیان کر رکھی ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5678
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ کھڑے تھے کہ آپ کے پاس سے ایک آدمی گزرا، آپ نے اس کو آواز دی تو وہ آ گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اے فلاں، یہ میری فلاں (صفیہ) بیوی ہے۔“ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کسی کے بارے میں تو میں گمان کر سکتا تھا، آپ کے بارے میں تو میں گمان نہیں کر سکتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان، انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5678]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں، اپنی بیوی کو گھر چھوڑنے جا رہے تھے کہ آپ کے پاس سے دو انصاری گزرے، انہوں نے تیز رفتاری اختیار کی، تاکہ آپ ان کی وجہ سے بات چیت کرنے میں حجاب محسوس نہ کریں، یا وہ شرم و حیا کی بنا پر تیزی سے واپس لوٹے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا، شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے، کہیں ان کے دل میں کوئی بدگمانی ہی پیدا نہ کر دے، اس لیے آپ نے فرمایا، سکون و اطمینان سے چلو، یہ میری بیوی ہے، اس طرح آپ نے بدگمانی پیدا ہونے کا فوری طور پر ازالہ کر دیا، کیونکہ آپ کے بارے میں بدگمانی بقول امام شافعی کفر ہے، اس لیے خیرخواہی اور ہمدردی کا تقاضا یہ تھا، ان کو اس سے بچایا جاتا، دوسرے انسانوں کے بارے میں بدگمانی کفر تو نہیں ہے، لیکن گناہ کا باعث ضرور ہے اور اس طرح کسی کے بارے میں انسان کے دل میں کراہت اور نفرت پیدا ہو سکتی ہے اور یہ چیز چغلی اور غیبت کا باعث بھی بن سکتی ہے، اس لیے کسی کو بدگمانی کا موقعہ نہیں دینا چاہیے اور ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے، جس سے بدظنی پیدا ہوتی ہو اور کبھی کوئی ایسی صورت پیش آ جائے تو حقیقت حال سے آگاہ کر دینا چاہیے، تاکہ دوسروں کے دل میں بدگمانی پیدا نہ ہو اور وہ گناہ گار نہ بنیں، اس روایت میں ایک آدمی کا تذکرہ ہے، حالانکہ وہ دو تھے تو یہاں رجل جنس کے لیے ہے کہ گزرنے والے مرد تھے، ایک یا دو کا تعین مقصود نہیں، یا ایک دوسرے کے کچھ پیچھے تھا، اگلے کو آزاد دی تو پچھلا بھی پہنچ گیا۔