(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت، عن انس، ان رجلا قال:" يا رسول الله اين ابي؟ قال: ابوك في النار فلما قفى، قال: إن ابي واباك في النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ فِي النَّارِ فَلَمَّا قَفَّى، قَالَ: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد جہنم میں ہیں“ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے صاف ظاہر ہے اہل فترہ (عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے لوگ) اگر مشرک ہیں تو جہنمی ہیں، کیونکہ ان کو دعوت ابراہیمی پہنچی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے بارے میں یہ حدیث نص صریح ہے، علامہ سیوطی وغیرہ نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندہ فرمایا، یا وہ ایمان لائے اور پھر مر گئے،تو یہ محض موضوع من گھڑت روایات پر مبنی ہے، ائمہ حدیث مثلا دارقطنی، جورقانی، ابن شاہین، ابن عساکر، ابن ناصر، ابن الجوزی، سہیلی، قرطبی، محب الطبری، ابن سیدالناس، ابراہیم الحلبی وغیرہم نے ان احادیث کو مکذوب مفتری اور موضوع قرار دیا ہے، علامہ ابراہیم حلبی نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے، اسی طرح ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں اور ایک مستقل کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کی بات غلط محض ہے، علی کل حال اس مسئلہ میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیئے بلکہ اپنی نجات کی فکر کرنی چاہیئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 88 (203)، (تحفة الأشراف: 327)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 268) (صحیح)»
Anas said: A man asked: where is my father, Messenger of Allah? He replied! Your father is in Hell. When he turned his back, he said: My father and your father are in Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4700
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 500
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: ” آگ میں“ جب وہ پشت پھیر کر چلا، تو آپﷺ نے اسے بلا کر فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:500]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ حدیث اس مسئلہ میں بالکل صریح ہے، کہ آپ ﷺ کے والد کفر کی حالت پرفوت ہوئے۔ اس کی موجودگی میں ایسی آیات اور احادیث سے استدلال کرنا جن کے معنی وتفسیرکے بارےمیں مختلف اقوال ہیں، اور سب کا احتمال موجود ہے، درست نہیں ہے، کیونکہ مسلم ضابطہ ہے "إِذَا جَاءَ الْاِحْتمَالُ بَطَلَ الْاسْتَدْلَالُ" کئی معانی کے احتمال کی صورت میں استدلال کرنا (ایک مسئلہ کےبارےمیں) درست نہیں ہے۔ اور "أبٌ" کامعنی ”چچا“ کرنامجازی معنی ہے، اورمجازی معنی کے لیے قرینہ اوردلیل کی ضرورت ہے، جویہاں موجودنہیں ہے۔ لیکن اس مسئلہ میں زیادہ بحث وکریدمیں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے اس کوخواہ مخواہ موضوع بحث نہیں بناناچاہیے۔ اس حدیث کا اصل مقصد یہ ہے، کہ کفر اتنا گھناؤنا جرم ہے کہ کسی عظیم سےعظیم ہستی کی سفارش سےبھی کافر دوزخ سےنہیں نکل سکتا۔