سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
18. باب فِي ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ
باب: کفار اور مشرکین کی اولاد کے انجام کا بیان۔
حدیث نمبر: 4717
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ"، قَالَ يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا: قَالَ أَبِي، فَحَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُ بِذَلِكَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عامر شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وائدہ» (زندہ درگور کرنے والی) اور «مؤودہ» (زندہ درگور کی گئی دونوں) جہنم میں ہیں“ ۱؎۔ یحییٰ بن زکریا کہتے ہیں: میرے والد نے کہا: مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا ہے کہ عامر شعبی نے ان سے اسے بیان کیا ہے، وہ علقمہ سے اور علقمہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور ابن مسعود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9466) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «وائدہ» اور «مؤودہ» سے کیا مراد ہے؟ بعض محدثین نے «وائدہ» سے زندہ درگور کرنے والی عورت، اور «مؤودہ» سے زندہ درگور کی گئی بچی مراد لی ہے، اس صورت میں ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک خاص بچی کے بارے میں فرمایا، یہ حکم عام نہیں ہے، بعض محدثین کے نزدیک «وائدہ» سے مراد زندہ درگور کرنے والی عورت، اور «مؤودہ» سے مراد وہ عورت ہے جو اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے پر راضی ہو، اس صورت میں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (112)
أخرجه الطبراني في الكبير (10/114 ح10059 وسنده صحيح) من حديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه به
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4717 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4717
فوائد ومسائل:
جس کو کم سنی میں ظلما دفن کر دیا گیا، وہ جہنم کی مستحق نہیں ہو سکتی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ نے وضاحت سے کہا ہے کہ وہ موودہ کے جہنمی ہونے کا نظریہ درست نہیں۔
انہوں نے فرمایاآیت (ما كنا معذبين حتي نبعث رسول) (بني إسرائيل:١٥) كے مطابق عاقل وبالغ کو اگر اسے دعوت نہ پہنچی ہو عذاب نہیں دیا جا سکتا تو غیر عاقل کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔
پہلے وضاحت ہو چکی ہے کہ مشرکین کی اولاد کو بھی عذاب نہ ہو گا۔
حدیث١٤٧١٧ ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔
اصل حدیث کا ایک حصہ ہے۔
اصل حدیث میں تفصٰل ہے کہ سلمہ بن بزید جعفی اور ان کے بھائی رسول ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ ہماری والدہ ملیکہ (جو جاہلیت میں مر گئیں) اچھی خاتون تھیں، صلہ رحمی اور مہمان نوازی کرنے والی تھیں، کیا ان باتوں کا ان کی والدہ کو فائدہ ہو گا؟ آپ ؐ نے فرمایا نہیں، انہوں نے پوچھا ہماری ماں نے ہماری ایک بہن کو زندہ دگن کردیا تھا، کیا اسے کوئی فائد ہ ہو گا؟ آپ ؐ نے فرمایا: (یہ) زندہ دفن کرنے والی اور زندہ دفن ہونے والی دونوں آگ میں ہیں۔
گویا آپ کا جواب ایک خاص موؤدہ کے بارے میں تھا۔
یہ عام حکم نہ تھا، غالبا یہ موؤدہ کفر کے عالم میں ہی بالغ ہو چکی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4717
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 112
´بچوں کو زندہ دفن کرنے والا`
«. . . وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الوائدة والموؤدة فِي النَّار \". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»
”. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وائد» یعنی زندہ بچوں کو دفن کرنے والا اور «موؤده» جس کے حکم سے زندہ گاڑا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں۔“ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 112]
تخریج الحدیث:
[سنن ابي داود 4717]
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
● زکریا بن ابی زائدہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے اور ان کی ابواسحاق عمرو بن السبیعی سے روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے، لہٰذا اس روایت میں اختلاط کا الزام غلط ہے۔
فقہ الحدیث:
➊ کفار کی اولاد کا وہی حکم ہے جو ان کے والدین کا ہے۔
➋ اگر کوئی کافر مظلوم مارا جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ جنت میں جائے گا۔
➌ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ ایک معین شخص کے بارے میں خاص واقعہ ہے۔ «والله اعلم»
➍ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [ح 93 الحديث: 36ص9]
➎ یہ روایت سنن ترمذی میں نہیں ملی اور مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں صرف «رواه أبوداود» لکھا ہوا ہے اور یہی راجح ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 112