كِتَاب النِّكَاحِ کتاب: نکاح کے احکام و مسائل 15. باب فِي الشِّغَارِ باب: نکاح شغار کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 28 (5109)، والحیل 4 (6960)، صحیح مسلم/النکاح 7 (1415)، سنن الترمذی/النکاح 30 (1124)، سنن النسائی/النکاح 60 (3336)، 61 (3339)، سنن ابن ماجہ/النکاح 16 (1883)، (تحفة الأشراف: 8141، 8323)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النکاح 11(24)، مسند احمد (2/7، 19، 62)، سنن الدارمی/النکاح 9 (2226) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نکاح شغار ایک قسم کا نکاح تھا، جو جاہلیت میں رائج تھا، جس میں آدمی اپنی بیٹی یا بہن کی اس شرط پر دوسرے سے شادی کر دیتا کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کی اس سے شادی کر دے، گویا اس کو مہر سمجھتے تھے، اسلام نے اس طرح کے نکاح سے منع کردیا، ہاں اگر شرط نہ ہو، اور الگ الگ مہر ہو تو جائز ہے۔ وضاحت ۲؎: یعنی ہر ایک اپنی بیٹی یا بہن ہی کو اپنی بیوی کا مہر قرار دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن اسحاق سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ہرمزاعرج نے مجھ سے بیان کیا کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحمٰن بن حکم سے کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کر دیا اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے اپنی بیٹی کے شادی کرنے کو اپنی بیوی کا مہر قرار دیا تو معاویہ نے مروان کو ان کے درمیان جدائی کا حکم لکھ کر بھیجا اور اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، مسند احمد (4/94)، (تحفة الأشراف: 11429) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
|