(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح، حدثنا شبابة، عن ورقاء، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب على الصدقة، فمنع ابن جميل و خالد بن الوليد و العباس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما ينقم ابن جميل إلا ان كان فقيرا فاغناه الله، واما خالد بن الوليد فإنكم تظلمون خالدا فقد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله، واما العباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فهي علي ومثلها"، ثم قال:" اما شعرت ان عم الرجل صنو الاب او صنو ابيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَمَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنْ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيَّ وَمِثْلُهَا"، ثُمَّ قَالَ:" أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ الْأَبِ أَوْ صِنْوُ أَبِيهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے (زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل اس لیے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کر دیا، رہے خالد بن ولید تو خالد پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامان جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ۱؎، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی قدر اور ہے ۲؎“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے“۔ راوی کو شک ہے «صنو الأب» کہا، یا «صنو أبيه» کہا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے سامان اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے وقف کر رکھا ہے، پھر ان کی زکاۃ کیسی، اسے تو انہوں نے اللہ ہی کی راہ میں دے رکھا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بن مانگے اپنی خوشی سے یہ چیزیں اللہ کی راہ میں دیدیں ہیں، تو وہ بھلا زکاۃ کیوں نہیں دیں گے، تمہیں لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو گی۔ ۲؎: باب سے مطابقت اسی لفظ سے ہے یعنی: ”اس سال کی زکاۃ اور اسی کے مثل آئندہ کی زکاۃ بھی“۔
Abu Hurairah said: The Prophet ﷺ sent Umar bin al-Khattab to collect sadaqa (All the people paid the zakat but ibn-jamil, Khalid bin al-walid and al-abbas refused. So the Messenger of Allah ﷺ said: Ibn-jamil is not (so much) objecting, but he was poor and Allah enriched him. As for Khalid bin Walid, you are wronging him, for he has kept back his courts of mail and weapons to use them in Allah’s path. As for al-Abbas, the uncle of the Messenger of Allah ﷺ, I shall be responsible for it and an equal amount along with it. Then he said did you not know (Umar) that a man’s paternal uncle is of the same stock as the father or his father?
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1619
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ جلدی (یعنی سال گزرنے سے پہلے) دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ راوی نے ایک بار «فرخص له في ذلك» کے بجائے «فأذن له في ذلك» روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ہشیم نے منصور بن زاذان سے، منصور نے حکم سے حکم نے حسن بن مسلم سے اور حسن بن مسلم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مرسلاً) روایت کی ہے اور ہشیم کی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، (یعنی: اس روایت کا مرسل بلکہ معضل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 37 (678)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 7 (1795)، (تحفة الأشراف:10063)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/104)، سنن الدارمی/الزکاة 12 (1676) (حسن)»
Narrated Ali ibn Abu Talib: Al-Abbas asked the Prophet ﷺ about paying the sadaqah (his zakat) in advance before it became due, and he gave permission to do that. Abu Dawud said: This tradition has also been transmitted by Hushaim through a different chain of narrators. The version of Hushaim is more sound.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1620