كِتَاب الزَّكَاةِ کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل 15. باب فِي الْخَرْصِ باب: درخت پر پھل کے تخمینہ لگانے کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں تشریف لائے، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم پھلوں کا تخمینہ کر لو تب انہیں کاٹو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی ہی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اندازہ لگانے والا ایک تہائی بیج بونے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے چھوڑ دے گا، اس کی زکاۃ نہیں لے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 17 (643)، سنن النسائی/الزکاة 26 (2490)، (تحفة الأشراف:4647)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/3) (ضعیف)» (عبدالرحمن بن مسعود انصاری لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی جتنا اندازہ لگایا جائے اس میں سے ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا جائے، اس کی زکاۃ نہ لی جائے کیوں کہ تخمینے میں کمی بیشی کا احتمال ہے، اسی طرح پھل تلف بھی ہو جاتے ہیں اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں، ایک تہائی چھوڑ دینے سے مالک کے ان نقصانات کی تلافی اور بھر پائی ہو جاتی ہے، اس پر اکثر علماء کا عمل ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|