كِتَابُ الْإِمَامَةِ فِي الصَّلَاةِ وَمَا فِيهَا مِنَ السُّنَنِ مُخْتَصَرٌ مِنْ كِتَابِ الْمُسْنَدِ کتاب المسند سے اختصار کے ساتھ نماز میں امامت اور اُس میں موجود سنّتوں کی کتاب 989. (38) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي صَلَاةِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ خَلْفَ مَنْ أَمَّ النَّاسَ مِنْ رَعِيَّتِهِ، وَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ مِنَ الرَّعِيَّةِ يَؤُمُّ النَّاسَ بِغَيْرِ إِذْنِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ امامِ اعظم (حکمران، امیر، بادشاہ) کا اپنی رعایا میں سے کسی شخص کی امامت میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان
اگرچہ رعایا میں سے لوگوں کی امامت کرانے والے امام نے امام اعظم سے اجازت نہ لی ہو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں مروی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ تبوک میں شرکت کی۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ آیا حتّیٰ کہ ہم نے دیکھا کہ لو گوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا ہوا ہے اور وہ اُنہیں نماز پڑھا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پا لی اور آخری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی، پھر جب سیدنا عبد الرحمان رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس سے مسلمان پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے بکثرت سبحان اللہ پڑھنا شروع کر دیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کام کیا ہے“، یا فرمایا: ”تم نے درست کام کیا ہے۔“ آپ اُن پر رشک کر رہے تھے کہ اُنہوں نے نماز کو اُس کے وقت پر ادا کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے اور امام اعظم لوگوں میں موجود نہ ہو یا وہ سفر میں ان کے پیچھے رہ گیا ہو تو رعایا کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی آدمی کا اپنا امام بنا لیں جو اُنہیں نماز پڑھائے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی االلہ عنہم کے فعل کی تحسین فرمائی ہے یا اسے درست قرار دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے آگے بڑھا لیا تھا اور نماز کو اس کے وقت پر ادا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنا انتظار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مگر جب امام اعظم موجود ہو تو پھر اُس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے لئے امامت کرانا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمران و امیر کی اجازت کے بغیر اُس کی امامت کرانے سے منع کیا ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم کسی شخص کو اس کی سلطنت و حکومت اور اس کے گھر میں امامت نہ کراؤ اور نہ اُس کی خصوصی مسند پر بیٹھو مگر اُس کی اجازت کے ساتھ۔ یا فرمایا: ”الّا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے۔“
تخریج الحدیث:
|