كِتَابُ الْإِمَامَةِ فِي الصَّلَاةِ وَمَا فِيهَا مِنَ السُّنَنِ مُخْتَصَرٌ مِنْ كِتَابِ الْمُسْنَدِ کتاب المسند سے اختصار کے ساتھ نماز میں امامت اور اُس میں موجود سنّتوں کی کتاب 985. (34) بَابُ إِبَاحَةِ إِمَامَةِ غَيْرِ الْمُدْرِكِ الْبَالِغِينَ إِذَا كَانَ غَيْرُ الْمُدْرِكِ أَكْثَرَ جَمْعًا لِلْقُرْآنِ مِنَ الْبَالِغِينَ. غیر بالغ لڑکے کی امامت جائز ہے، جبکہ غیر بالغ لڑکے کو بالغوں سے قرآن مجید زیادی یاد ہو
سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسی جگہ رہائش پذیر تھے جہاں لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ لہٰذا قافلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے واپسی پر ہمارے پاس سے گزرے، تو میں اُن کے قریب ہو کر اُن سے (قرآن مجید) سنتا رہا۔ حتّیٰ کہ میں نے کافی سارا قرآن حفظ کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے فتح مکہ کے منتظر تھے۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ ایک آدمی آ کر کہتا کہ اے اللہ کے رسول! میں فلاں قبیلے کا قاصد ہوں اور آپ کی خدمت میں ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر لے کر حاضر ہوا ہوں۔ لہٰذا میرے والد گرامی بھی اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر گئے، پھر جب واپس آئے تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اُس شخص کو اپنا امام بناؤ، جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس بارے میں غور و فکر اور مشورہ کیا (کہ کسے امام بنایا جائے) جبکہ میں بستی میں تھا۔ دورقی کی روایت میں ہے کہ میں ایک عظیم بستی میں تھا۔ تو لوگوں کو مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا کوئی شخص نہ ملا۔ لہٰذا اُنہوں نے مجھے اپنا امام بنا لیا حالانکہ میں نابالغ لڑکا تھا۔ تو میں نے اُنہیں نماز پڑھائی۔ میں نے اپنی ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جب میں رکوع یا سجدہ کرتا تو میری شرم گاہ ننگی ہو جاتی۔ جب ہم نے نماز مکمل کی تو ایک طویل العمر بڑھیا نے کہا کہ اپنے قاری کی شرم گاہ کو ہم سے ڈھانپو۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مجھے ایک قمیص بنا کر دی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے کہا تھا کہ بحرین کے بنے ہوئے ازار بند کی قمیص بنا کر دی۔ یہ بھی بیان کیا کہ وہ قمیص ملنے پر بےحد خوش ہوئے تھے۔ دورقی کی روایت میں ہے: ”تم میں سے زیادہ قرآن جاننے والے کو تمہاری امامت کرانی چاہیے۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|