صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
کتاب المسند سے اختصار کے ساتھ نماز میں امامت اور اُس میں موجود سنّتوں کی کتاب
989. (38) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي صَلَاةِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ خَلْفَ مَنْ أَمَّ النَّاسَ مِنْ رَعِيَّتِهِ، وَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ مِنَ الرَّعِيَّةِ يَؤُمُّ النَّاسَ بِغَيْرِ إِذْنِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ
989. امامِ اعظم (حکمران، امیر، بادشاہ) کا اپنی رعایا میں سے کسی شخص کی امامت میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان
حدیث نمبر: 1515Q
Save to word اعراب
وإن كان الإمام من الرعية يؤم الناس بغير إذن الإمام الاعظم قال ابو بكر: خبر المغيرة بن شعبة في إمامة عبد الرحمن بن عوفوَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ مِنَ الرَّعِيَّةِ يَؤُمُّ النَّاسَ بِغَيْرِ إِذَنِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فِي إِمَامَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ
اگرچہ رعایا میں سے لوگوں کی امامت کرانے والے امام نے امام اعظم سے اجازت نہ لی ہو۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں مروی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 1515
Save to word اعراب
نا محمد بن رافع ، نا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني ابن شهاب ، عن حديث عباد بن زياد ، ان عروة بن المغيرة بن شعبة اخبره، ان المغيرة بن شعبة اخبره، انه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، قال المغيرة: فاقبلت معه حتى نجد الناس قد قدموا عبد الرحمن بن عوف، فصلى لهم، فادرك رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى الركعتين، فصلى مع الناس الركعة الاخيرة، فلما سلم عبد الرحمن" قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتم صلاته، فافزع ذلك المسلمين، فاكثروا التسبيح"، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته، اقبل عليهم، ثم قال:" احسنتم" ، او قال:" اصبتم"، يغبطهم ان صلوا الصلاة لوقتها. قال ابو بكر: في الخبر دلالة على ان الصلاة إذا حضرت وكان الإمام الاعظم غائبا عن الناس، او متخلفا عنهم في سفر، فجائز للرعية ان يقدموا رجلا منهم يؤمهم، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد حسن فعل القوم او صوبه، إذ صلوا الصلاة لوقتها بتقديمهم عبد الرحمن بن عوف ليؤمهم، ولم يامرهم بانتظار النبي صلى الله عليه وسلم. فاما إذا كان الإمام الاعظم حاضرا، فغير جائز ان يؤمهم احد بغير إذنه ؛ لان النبي صلى الله عليه وسلم قد" زجر عن ان يؤم السلطان بغير امره"نا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ زِيَادٍ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةِ بْنَ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَأَقْبَلْتُ مَعَهُ حَتَّى نَجِدَ النَّاسَ قَدْ قَدَّمُوا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَصَلَّى لَهُمْ، فَأَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى مَعَ النَّاسِ الرَّكْعَةَ الأَخِيرَةَ، فَلَمَّا سَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ" قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتِمُّ صَلاتَهُ، فَأَفْزَعَ ذَلِكَ الْمُسْلِمِينَ، فَأَكْثَرُوا التَّسْبِيحَ"، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاتَهُ، أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ:" أَحْسَنْتُمْ" ، أَوْ قَالَ:" أَصَبْتُمْ"، يَغْبِطُهُمْ أَنْ صَلُّوا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الصَّلاةَ إِذَا حَضَرَتْ وَكَانَ الإِمَامُ الأَعْظَمُ غَائِبًا عَنِ النَّاسِ، أَوْ مُتَخَلِّفًا عَنْهُمْ فِي سَفَرٍ، فَجَائِزٌ لِلرَّعِيَّةِ أَنْ يُقَدِّمُوا رَجُلا مِنْهُمْ يَؤُمُّهُمْ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَسَّنَ فِعْلَ الْقَوْمِ أَوْ صَوَّبَهُ، إِذْ صَلُّوا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا بِتَقْدِيمِهِمْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ لِيَؤُمَّهُمْ، وَلَمْ يَأْمُرْهُمْ بِانْتِظَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأَمَّا إِذَا كَانَ الإِمَامُ الأَعْظَمُ حَاضِرًا، فَغَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَؤُمَّهُمْ أَحَدٌ بِغَيْرِ إِذْنِهِ ؛ لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" زَجَرَ عَنْ أَنْ يُؤَمَّ السُّلْطَانُ بِغَيْرِ أَمْرِهِ"
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ تبوک میں شرکت کی۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ آیا حتّیٰ کہ ہم نے دیکھا کہ لو گوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا ہوا ہے اور وہ اُنہیں نماز پڑھا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پا لی اور آخری رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی، پھر جب سیدنا عبد الرحمان رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس سے مسلمان پریشان ہو گئے اور اُنہوں نے بکثرت سبحان اللہ پڑھنا شروع کر دیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل کی تو اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر فرمایا: تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، یا فرمایا: تم نے درست کام کیا ہے۔ آپ اُن پر رشک کر رہے تھے کہ اُنہوں نے نماز کو اُس کے وقت پر ادا کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جائے اور امام اعظم لوگوں میں موجود نہ ہو یا وہ سفر میں ان کے پیچھے رہ گیا ہو تو رعایا کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی آدمی کا اپنا امام بنا لیں جو اُنہیں نماز پڑھائے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی االلہ عنہم کے فعل کی تحسین فرمائی ہے یا اسے درست قرار دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے آگے بڑھا لیا تھا اور نماز کو اس کے وقت پر ادا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنا انتظار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مگر جب امام اعظم موجود ہو تو پھر اُس کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے لئے امامت کرانا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمران و امیر کی اجازت کے بغیر اُس کی امامت کرانے سے منع کیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.