كِتَابُ الْإِمَامَةِ فِي الصَّلَاةِ وَمَا فِيهَا مِنَ السُّنَنِ مُخْتَصَرٌ مِنْ كِتَابِ الْمُسْنَدِ کتاب المسند سے اختصار کے ساتھ نماز میں امامت اور اُس میں موجود سنّتوں کی کتاب 957. (6) بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ مَا كَثُرَ مِنَ الْعَدَدِ فِي الصَّلَاةِ جَمَاعَةً كَانَتِ الصَّلَاةُ أَفْضَلَ اس بات کا بیان کہ نماز باجماعت میں جتنے لوگ زیادہ ہوں گے، وہ اتنی ہی افضل ہوگی
جناب ابوبصیر بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منوّرہ آیا تو میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کی کہ اے ابومنذر مجھے کوئی ایسی پسندیدہ ترین حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر پوچھا: ”کیا فلاں شخص موجود ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، اور وہ نماز میں حاضر نہیں ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا فلاں شخص حاضر ہوا ہے؟“ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، اور وہ نماز میں حاضرنہیں ہواتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ منافقین پر سب سے بھاری نماز، نمازعشاء اور نماز فجر ہے۔ اور اگر وہ ان دونوں کے اجر وثواب کو جان لیں تو وہ ان میں ضرور حاضر ہوں اگرچہ اُنہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کرآنا پڑے، بیشک پہلی صف فرشتوں کی صف جیسی (فضیلت والی) ہے۔ اور اگر تمہیں اس کی فضیلت معلوم ہو جائے تو تم اس کے لئے دوڑتے ہوئے آؤ۔ اور یقیناًً تمہاری ایک ساتھی کے ساتھ نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے بہتر ہے۔ اور تمھارا دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے سے افضل و بہتر ہے۔ اور جو نماز زیادہ تعداد والی ہوگی تو وہ اللہ تعالیٰ کو اتنی ہی زیادہ محبوب ہوگی۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی اور پوچھا: ”کیا فلاں آدمی حاضر ہے؟“ آگے بقیہ حدیث بیان کی جس کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نماز میں) جتنے آدمی زیادہ ہوں گے اتنی ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو گی۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|