حدثني حدثني يحيى، عن مالك انه بلغه، ان عمر بن الخطاب، قال في رجل: " اسلف رجلا طعاما على ان يعطيه إياه في بلد آخر"، فكره ذلك عمر بن الخطاب. وقال:" فاين الحمل؟" يعني حملانه حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ فِي رَجُلٍ: " أَسْلَفَ رَجُلًا طَعَامًا عَلَى أَنْ يُعْطِيَهُ إِيَّاهُ فِي بَلَدٍ آخَرَ"، فَكَرِهَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. وَقَالَ:" فَأَيْنَ الْحَمْلُ؟" يَعْنِي حُمْلَانَهُ
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: جو شخص کسی کو اناج قرض دے اس شرط پر کہ فلانے شہر میں ادا کرنا۔ انہوں نے اس کو مکروہ جانا اور کہا: بار برداری کی اُجرت کہاں جائے گی۔
وحدثني وحدثني مالك انه بلغه، ان رجلا اتى عبد الله بن عمر، فقال: يا ابا عبد الرحمن، إني اسلفت رجلا سلفا واشترطت عليه افضل مما اسلفته. فقال عبد الله بن عمر:" فذلك الربا". قال: فكيف تامرني يا ابا عبد الرحمن؟ فقال عبد الله: " السلف على ثلاثة وجوه: سلف تسلفه تريد به وجه الله فلك وجه الله، وسلف تسلفه تريد به وجه صاحبك فلك وجه صاحبك، وسلف تسلفه لتاخذ خبيثا بطيب فذلك الربا". قال: فكيف تامرني يا ابا عبد الرحمن؟ قال:" ارى ان تشق الصحيفة، فإن اعطاك مثل الذي اسلفته قبلته وإن اعطاك دون الذي اسلفته فاخذته اجرت، وإن اعطاك افضل مما اسلفته طيبة به نفسه، فذلك شكر شكره لك، ولك اجر ما انظرته" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي أَسْلَفْتُ رَجُلًا سَلَفًا وَاشْتَرَطْتُ عَلَيْهِ أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفْتُهُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:" فَذَلِكَ الرِّبَا". قَالَ: فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " السَّلَفُ عَلَى ثَلَاثَةِ وُجُوهٍ: سَلَفٌ تُسْلِفُهُ تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ فَلَكَ وَجْهُ اللَّهِ، وَسَلَفٌ تُسْلِفُهُ تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ صَاحِبِكَ فَلَكَ وَجْهُ صَاحِبِكَ، وَسَلَفٌ تُسْلِفُهُ لِتَأْخُذَ خَبِيثًا بِطَيِّبٍ فَذَلِكَ الرِّبَا". قَالَ: فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ:" أَرَى أَنْ تَشُقَّ الصَّحِيفَةَ، فَإِنْ أَعْطَاكَ مِثْلَ الَّذِي أَسْلَفْتَهُ قَبِلْتَهُ وَإِنْ أَعْطَاكَ دُونَ الَّذِي أَسْلَفْتَهُ فَأَخَذْتَهُ أُجِرْتَ، وَإِنْ أَعْطَاكَ أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفْتَهُ طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ، فَذَلِكَ شُكْرٌ شَكَرَهُ لَكَ، وَلَكَ أَجْرُ مَا أَنْظَرْتَهُ"
ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا: میں نے ایک شخص کو قرض دیا اور عمدہ اس سے ٹھہرایا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ ربا ہے۔ اس نے کہا: پھر کیا حکم کرتے ہو؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: قرض تین طور پر ہے: ایک اللہ کے واسطے، اس میں تو اللہ کی رضا مندی ہے۔ ایک اپنے دوست کی خوشی کے لئے، اس میں دوست کی رضا مندی ہے۔ ایک قرض اس واسطے ہے کہ حلال مال دے کر حرام مال لے، یہ سود ہے۔ پھر وہ شخص بولا: اب مجھ کو کیا حکم کرتے ہو اے ابوعبدالرحمٰن؟ انہوں نے کہا: میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تو دستاویز کو پھاڑ ڈال، اگر وہ شخص جس کو تو نے قرض دیا ہے جیسا مال تو نے دیا ہے ویسا ہی دے تو لے لے، اگر اس سے بُرا دے اور تو لے لے تو تجھے اجر ہوگا، اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے اچھا دے تو اس نے تیرا شکریہ ادا کیا اور تو نے جو اتنے دنوں تک اس کو مہلت دی اس کا ثواب تجھے ملا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10980، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1973، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14662، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 92»
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، انه سمع عبد الله بن عمر ، يقول: " من اسلف سلفا فلا يشترط إلا قضاءه" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: " مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلَا يَشْتَرِطْ إِلَّا قَضَاءَهُ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جو شخص کسی کو قرض دے تو سوائے قرض ادا کرنے کے اور کوئی شرط نہ کرائے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10936، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1972، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2979، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 93»
وحدثني وحدثني مالك، انه بلغه، ان عبد الله بن مسعود، كان يقول: " من اسلف سلفا، فلا يشترط افضل منه، وإن كانت قبضة من علف فهو ربا" . وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ يَقُولُ: " مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا، فَلَا يَشْتَرِطْ أَفْضَلَ مِنْهُ، وَإِنْ كَانَتْ قَبْضَةً مِنْ عَلَفٍ فَهُوَ رِبًا" .
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: جو شخص کسی کو قرض دے، اس سے زیادہ نہ ٹھہرائے، اگر ایک مٹھی گھاس کی ہو، تو وہ ربا ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10937، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14658، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22754، 22761، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 94»
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا: ان من استسلف شيئا من الحيوان بصفة وتحلية معلومة، فإنه لا باس بذلك، وعليه ان يرد مثله إلا ما كان من الولائد، فإنه يخاف في ذلك الذريعة إلى إحلال ما لا يحل، فلا يصلح، وتفسير ما كره من ذلك: ان يستسلف الرجل الجارية فيصيبها ما بدا له، ثم يردها إلى صاحبها بعينها، فذلك لا يصلح ولا يحل، ولم يزل اهل العلم ينهون عنه ولا يرخصون فيه لاحدقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ مَنِ اسْتَسْلَفَ شَيْئًا مِنَ الْحَيَوَانِ بِصِفَةٍ وَتَحْلِيَةٍ مَعْلُومَةٍ، فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، وَعَلَيْهِ أَنْ يَرُدَّ مِثْلَهُ إِلَّا مَا كَانَ مِنَ الْوَلَائِدِ، فَإِنَّهُ يُخَافُ فِي ذَلِكَ الذَّرِيعَةُ إِلَى إِحْلَالِ مَا لَا يَحِلُّ، فَلَا يَصْلُحُ، وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنْ يَسْتَسْلِفَ الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ فَيُصِيبُهَا مَا بَدَا لَهُ، ثُمَّ يَرُدُّهَا إِلَى صَاحِبِهَا بِعَيْنِهَا، فَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ وَلَا يَحِلُّ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَلَا يُرَخِّصُونَ فِيهِ لِأَحَدٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کوئی جانور جس کا حلیہ اور صفت معلوم ہو کسی کو قرض دے تو کچھ قباحت نہیں، اب مقروض ویسا ہی جانور ادا کرے۔ مگر لونڈی کو قرض لینا درست نہیں، کیونکہ یہ ذریعہ ہے حرام کے حلال کرنے کا، لوگ ایک دوسرے کی لونڈی قرض لے آئیں گے، پھر جب تک جی چاہے گا اس سے جماع کریں گے، بعد اس کے مالک کو پھیر دیں گے، یہ تو حلال نہیں۔ ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے اور کسی کو اس کی اجازت نہ دی۔