كِتَابُ الْبُيُوعِ کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں 26. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ جس طرح یا جس جانور کو بیچنا درست نہیں ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا حبل الحبلہ کی بیع سے، یہ بیع ایامِ جاہلیت میں مروج تھی، آدمی اونٹ خریدتا تھا اس وعدے پر کہ جب اونٹنی کا بچہ ہوگا اور پھر بچے کا بچہ اس وقت میں دام لوں گا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2143، 2256، 3843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1514، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4946، 4947، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4629، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6173، 6174، 6175، 6176، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3380، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1229، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2197، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10971، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5307، والحميدي فى «مسنده» برقم: 706، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5653، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 62»
سعید بن مسیّب نے کہا: حیوان میں ربا نہیں ہے، بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں، ایک مضامین کی، دوسرے ملاقیح کی، تیسرے حبل الحبلہ کی۔ مضامین وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں۔ ملاقیح وہ جانور جو نر کے پشت میں ہیں، حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہو چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10568، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3359، والبزار فى «مسنده» برقم: 7785، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14137، والشافعي فى «الاُم» برقم: 37/3 118 256/7، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 63»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کر چکا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع مشتری سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے، البتہ اگر غیرمعین جانور کو اوصاف بیان کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 63»
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 63»
|