قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان من ابتاع شيئا من الفاكهة من رطبها او يابسها، فإنه لا يبيعه حتى يستوفيه، ولا يباع شيء منها بعضه ببعض، إلا يدا بيد، وما كان منها مما ييبس، فيصير فاكهة يابسة تدخر، وتؤكل، فلا يباع بعضه ببعض إلا يدا بيد، ومثلا بمثل إذا كان من صنف واحد، فإن كان من صنفين مختلفين، فلا باس بان يباع منه اثنان بواحد يدا بيد، ولا يصلح إلى اجل، وما كان منها مما لا ييبس ولا يدخر، وإنما يؤكل رطبا كهيئة البطيخ والقثاء والخربز، والجزر والاترج، والموز والرمان وما كان مثله، وإن يبس لم يكن فاكهة بعد ذلك، وليس هو مما يدخر، ويكون فاكهة، قال: فاراه حقيقا ان يؤخذ منه من صنف واحد اثنان بواحد يدا بيد، فإذا لم يدخل فيه شيء من الاجل فإنه لا باس به.قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ مَنِ ابْتَاعَ شَيْئًا مِنَ الْفَاكِهَةِ مِنْ رَطْبِهَا أَوْ يَابِسِهَا، فَإِنَّهُ لَا يَبِيعُهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ، وَلَا يُبَاعُ شَيْءٌ مِنْهَا بَعْضُهُ بِبَعْضٍ، إِلَّا يَدًا بِيَدٍ، وَمَا كَانَ مِنْهَا مِمَّا يَيْبَسُ، فَيَصِيرُ فَاكِهَةً يَابِسَةً تُدَّخَرُ، وَتُؤْكَلُ، فَلَا يُبَاعُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ، وَمِثْلًا بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، فَإِنْ كَانَ مِنْ صِنْفَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُبَاعَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا يَصْلُحُ إِلَى أَجَلٍ، وَمَا كَانَ مِنْهَا مِمَّا لَا يَيْبَسُ وَلَا يُدَّخَرُ، وَإِنَّمَا يُؤْكَلُ رَطْبًا كَهَيْئَةِ الْبِطِّيخِ وَالْقِثَّاءِ وَالْخِرْبِزِ، وَالْجَزَرِ وَالْأُتْرُجِّ، وَالْمَوْزِ وَالرُّمَّانِ وَمَا كَانَ مِثْلَهُ، وَإِنْ يَبِسَ لَمْ يَكُنْ فَاكِهَةً بَعْدَ ذَلِكَ، وَلَيْسَ هُوَ مِمَّا يُدَّخَرُ، وَيَكُونُ فَاكِهَةً، قَالَ: فَأَرَاهُ حَقِيقًا أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا لَمْ يَدْخُلْ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ الْأَجَلِ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے، جو شخص کوئی میوہ تر یا خشک خریدے اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لے، اور میوے کو میوے کے بدلے میں اگر بیچے تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے، اور جو میوہ لیا ایسا ہے کہ سوکھا کر کھایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے، اس کو اگر میوے کے بدلے میں بیچے اور ایک جنس ہو تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے، اور برابر بیچے، کمی بیشی اس میں درست نہیں، البتہ اگر جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے، مگر نقداً نقد بیچنا چاہیے، اس میں میعاد لگانا درست نہیں، اور جو میوہ سوکھایا نہیں جاتا بلکہ تر کھایا جاتا ہے، جیسے خربوزہ ککڑی، ترنج، کیلا، گاجر، انار وغیرہ، اس کو ایک دوسرے کے بدلے میں اگرچہ جنس ایک ہو، کمی بیشی کے ساتھ بھی درست ہے، جب اس میں میعاد نہ ہو نقداً نقد ہو۔