(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا ابن ابي نجيح ، قال: سالت طاوسا عن رجل رمى الجمرة بست حصيات، فقال: ليطعم قبضة من طعام , قال: فلقيت مجاهدا فسالته، وذكرت له قول طاوس، فقال: رحم الله ابا عبد الرحمن، اما بلغه قول سعد بن مالك , قال: رمينا الجمار، او الجمرة في حجتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جلسنا نتذاكر، فمنا من قال: رميت بست، ومنا من قال: رميت بسبع، ومنا من قال: رميت بثمان، ومنا من قال: رميت بتسع فلم يروا بذلك باسا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ رَجُلٍ رَمَى الْجَمْرَةَ بِسِتِّ حَصَيَاتٍ، فَقَالَ: لِيُطْعِمْ قَبْضَةً مِنْ طَعَامٍ , قَالَ: فَلَقِيتُ مُجَاهِدًا فَسَأَلْتُهُ، وَذَكَرْتُ لَهُ قَوْلَ طَاوُسٍ، فَقَالَ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا بَلَغَهُ قَوْلُ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: رَمَيْنَا الْجِمَارَ، أَوْ الْجَمْرَةَ فِي حَجَّتِنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسْنَا نَتَذَاكَرُ، فَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِسِتٍّ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِسَبْعٍ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِثَمَانٍ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِتِسْعٍ فَلَمْ يَرَوْا بِذَلِكَ بَأْسًا.
ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کر دیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، مجاهد لم يسمع من سعد بن أبى وقاص
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا ايوب , عن عمرو بن سعيد ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، عن ثلاثة من ولد سعد , عن سعد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليه يعوده وهو مريض، وهو بمكة , فقال: يا رسول الله، قد خشيت ان اموت بالارض التي هاجرت منها كما مات سعد ابن خولة، فادع الله ان يشفيني , قال:" اللهم اشف سعدا، اللهم اشف سعدا، اللهم اشف سعدا" , فقال: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا، وليس لي وارث إلا ابنة، افاوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: افاوصي بثلثيه؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بنصفه؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إن نفقتك من مالك لك صدقة، وإن نفقتك على عيالك لك صدقة، وإن نفقتك على اهلك لك صدقة، وإنك ان تدع اهلك بعيش او قال: بخير، خير من ان تدعهم يتكففون الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، وَهُوَ بِمَكَّةَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَشْفِيَنِي , قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا" , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا، وَلَيْسَ لِي وَارِثٌ إِلَّا ابْنَةً، أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِنِصْفِهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ نَفَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى أَهْلِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِعَيْشٍ أَوْ قَالَ: بِخَيْرٍ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مرجاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا، اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔“ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا، تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي عبد الكبير بن عبد المجيد , حدثنا بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد , ان اخاه عمر انطلق إلى سعد في غنم له خارجا من المدينة، فلما رآه سعد , قال: اعوذ بالله من شر هذا الراكب , فلما اتاه , قال: يا ابة، ارضيت ان تكون اعرابيا في غنمك، والناس يتنازعون في الملك بالمدينة؟ فضرب سعد صدر عمر، وقال: اسكت، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن الله عز وجل يحب العبد: التقي الغني الخفي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ , حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ أَخَاهُ عُمَرَ انْطَلَقَ إِلَى سَعْدٍ فِي غَنَمٍ لَهُ خَارِجًا مِنَ الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ , قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ , فَلَمَّا أَتَاهُ , قَالَ: يَا أَبَةِ، أَرَضِيتَ أَنْ تَكُونَ أَعْرَابِيًّا فِي غَنَمِكَ، وَالنَّاسُ يَتَنَازَعُونَ فِي الْمُلْكِ بِالْمَدِينَةِ؟ فَضَرَبَ سَعْدٌ صَدْرَ عُمَرَ، وَقَالَ: اسْكُتْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْعَبْدَ: التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ".
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا (تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے: اباجان! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں، اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: خاموش رہو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا فليح ، عن عبد الله بن عبد الرحمن يعني ابن معمر ، قال: حدث عامر بن سعد , عمر بن عبد العزيز، وهو امير على المدينة , ان سعدا , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اكل سبع تمرات عجوة من بين لابتي المدينة على الريق، لم يضره يومه ذلك شيء حتى يمسي" , قال فليح: واظنه قال:" وإن اكلها حين يمسي لم يضره شيء، حتى يصبح" , فقال عمر: انظر يا عامر ما تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: اشهد ما كذبت على سعد، وما كذب سعد على رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَعْمَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ , عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ , أَنَّ سَعْدًا , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ مِنْ بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ عَلَى الرِّيقِ، لَمْ يَضُرَّهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ شَيْءٌ حَتَّى يُمْسِيَ" , قَالَ فُلَيْحٌ: وَأَظُنُّهُ قَالَ:" وَإِنْ أَكَلَهَا حِينَ يُمْسِي لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يُصْبِحَ" , فَقَالَ عُمَرُ: انْظُرْ يَا عَامِرُ مَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: أَشْهَدُ مَا كَذَبْتُ عَلَى سَعْدٍ، وَمَا كَذَبَ سَعْدٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الله بن جعفر ، عن إسماعيل بن محمد بن سعد ، عن عامر بن سعد , ان سعدا ركب إلى قصره بالعقيق، فوجد غلاما يخبط شجرا، او يقطعه، فسلبه، فلما رجع سعد جاءه اهل الغلام، فكلموه ان يرد ما اخذ من غلامهم، فقال:" معاذ الله ان ارد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم" , وابى ان يرد عليهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ، فَوَجَدَ غُلَامًا يَخْبِطُ شَجَرًا، أَوْ يَقْطَعُهُ، فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْغُلَامِ، فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ، فَقَالَ:" مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ.
عامر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں)، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیں، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں؟ اللہ کی پناہ! اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔ فائدہ: اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر 1460 میں آرہی ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے، اور اس کے فیصلے پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي حميد متفق على ضعفه
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حميد ، حدثنا إسماعيل بن محمد بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه , عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سعادة ابن آدم ثلاثة، ومن شقوة ابن آدم ثلاثة , من سعادة ابن آدم: المراة الصالحة، والمسكن الصالح، والمركب الصالح، ومن شقوة ابن آدم: المراة السوء، والمسكن السوء، والمركب السوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ , مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ السُّوءُ، وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ، وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے، جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف ابن ابي حميد
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔“ اور شاید یہ بھی فرمایا کہ ”لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ابن لهيعة سي الحفظ ولكنه توبع
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن اخي سعد، ولاضطراب سنده
حدثنا محمد بن جعفر ، وذكر الحديث بقصة فيه , فقال ابن اخي سعد بن مالك: قد ذكروا بني ناجية عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" هم حي مني" , ولم يذكر فيه سعد.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّةٍ فِيهِ , فَقَالَ ابْنُ أَخِي سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ: قَدْ ذَكَرُوا بَنِي نَاجِيَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُمْ حَيٌّ مِنِّي" , وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ سَعْدٌ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، عن داود بن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه , عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لو ان ما يقل ظفر مما في الجنة بدا، لتزخرفت له ما بين خوافق السماوات والارض، ولو ان رجلا من اهل الجنة اطلع فبدا سواره، لطمس ضوؤه ضوء الشمس، كما تطمس الشمس ضوء النجوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا فِي الْجَنَّةِ بَدَا، لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ مَا بَيْنَ خَوَافِقِ السَّمََاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَا سِوَارُهُ، لَطَمَسَ ضَوؤُهُ ضَوْءَ الشَّمْسِ، كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُومِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہو جائیں، اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ انسان کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے“، سوائے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا خالد , عن ابي عثمان ، قال: لما ادعي زياد لقيت ابا بكرة، قال: فقلت: ما هذا الذي صنعتم؟ إني سمعت سعد بن ابي وقاص , يقول: سمع اذني من رسول الله صلى الله عليه وسلم , وهو يقول:" من ادعى ابا في الإسلام غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام" , فقال ابو بكرة: وانا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا خَالِدٌ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: لَمَّا ادُّعِيَ زِيَادٌ لَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ؟ إِنِّي سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , يَقُولُ: سَمِعَ أُذُنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ يَقُولُ:" مَنْ ادَّعَى أَبًا فِي الْإِسْلَامِ غَيْرَ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: وَأَنَا سَمِعْتهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوعثمان کہتے ہیں کہ جب زیاد کی نسبت کا مسئلہ بہت بڑھا تو ایک دن میری ملاقات سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے، تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک ڈھال کی قیمت کے برابر کوئی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو واقد الليثي ضعيف عند جمهور المحدثين
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن ابي حميد
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ حرم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرم قرار دیا ہے جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اے اللہ! اہل مدینہ کو دوگنی برکتیں عطاء فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م : 1362، 1387، وهذا إسناد حسن
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، انبانا عاصم بن بهدلة ، عن مصعب بن سعد , عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بقصعة، فاكل منها، ففضلت فضلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجيء رجل من هذا الفج من اهل الجنة، ياكل هذه الفضلة" , قال سعد: وكنت تركت اخي عميرا يتوضا، قال: فقلت: هو عمير , قال: فجاء عبد الله بن سلام فاكلها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا، فَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَجِيءُ رَجُلٌ مِنْ هَذَا الْفَجِّ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، يَأْكُلُ هَذِهِ الْفَضْلَةَ" , قَالَ سَعْدٌ: وَكُنْتُ تَرَكْتُ أَخِي عُمَيْرًا يَتَوَضَّأُ، قَالَ: فَقُلْتُ: هُوَ عُمَيْرٌ , قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَأَكَلَهَا.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثني يعلى بن حكيم ، عن سليمان بن ابي عبد الله ، قال: رايت سعد بن ابي وقاص اخذ رجلا يصيد في حرم المدينة الذي حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلبه ثيابه، فجاء مواليه، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حرم هذا الحرم، وقال:" من رايتموه يصيد فيه شيئا، فله سلبه" , فلا ارد عليكم طعمة اطعمنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن إن شئتم اعطيتكم ثمنه , وقال عفان مرة: إن شئتم ان اعطيكم ثمنه اعطيتكم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ أَخَذَ رَجُلًا يَصِيدُ فِي حَرَمِ الْمَدِينَةِ الَّذِي حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَبَهُ ثِيَابَهُ، فَجَاءَ مَوَالِيهِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ هَذَا الْحَرَمَ، وَقَالَ:" مَنْ رَأَيْتُمُوهُ يَصِيدُ فِيهِ شَيْئًا، فَلَهُ سَلَبُهُ" , فَلَا أَرُدُّ عَلَيْكُمْ طُعْمَةً أَطْعَمَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ إِنْ شِئْتُمْ أَعْطَيْتُكُمْ ثَمَنَهُ , وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: إِنْ شِئْتُمْ أَنْ أُعْطِيَكُمْ ثَمَنَهُ أَعْطَيْتُكُمْ.
سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ رکھا ہے جو حرم مدینہ میں شکار کر رہا تھا، انہوں نے اس سے اس کے کپڑے چھین لئے، تھوڑی دیر بعد اس کے مالکان آگئے اور ان سے کپڑوں کا مطالبہ کرنے لگے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شہر مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ”جس شخص کو تم یہاں شکار کرتے ہوئے دیکھو، اس سے اس کا سامان چھین لو“، اس لئے اب میں تمہیں وہ لقمہ واپس نہیں کر سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھلایا ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے سکتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني محمد بن عبد الرحمن بن عبد الله بن الحصين انه حدث , عن سعد بن ابي وقاص انه كان يصلي العشاء الآخرة في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم يوتر بواحدة لا يزيد عليها، قال: فيقال له: اتوتر بواحدة لا تزيد عليها يا ابا إسحاق؟ فيقول: نعم، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول" الذي لا ينام حتى يوتر حازم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَ , عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ لَا تَزِيدُ عَلَيْهَا يَا أَبَا إِسْحَاقَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ" الَّذِي لَا يَنَامُ حَتَّى يُوتِرَ حَازِمٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر اس پر کوئی اضافہ نہ کرتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! آپ ایک رکعت وتر پڑھنے کے بعد کوئی اضافہ نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص وتر پڑھے بغیر نہ سوئے، وہ عقلمند ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وفي إسناده محمد بن عبد الرحمٰن مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عمر ، حدثنا يونس بن ابي إسحاق الهمداني ، حدثنا إبراهيم بن محمد بن سعد ، حدثني والدي محمد , عن ابيه سعد ، قال: مررت بعثمان بن عفان في المسجد، فسلمت عليه، فملا عينيه مني، ثم لم يرد علي السلام، فاتيت امير المؤمنين عمر بن الخطاب، فقلت: يا امير المؤمنين، هل حدث في الإسلام شيء؟ مرتين، قال: لا، وما ذاك؟ قال: قلت: لا، إلا اني مررت بعثمان آنفا في المسجد، فسلمت عليه، فملا عينيه مني، ثم لم يرد علي السلام , قال: فارسل عمر إلى عثمان، فدعاه، فقال: ما منعك ان لا تكون رددت على اخيك السلام؟ قال عثمان: ما فعلت , قال سعد: قلت: بلى , قال: حتى حلف وحلفت، قال: ثم إن عثمان ذكر , فقال: بلى، واستغفر الله واتوب إليه، إنك مررت بي آنفا وانا احدث نفسي بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا والله ما ذكرتها قط إلا تغشى بصري وقلبي غشاوة , قال: قال سعد: فانا انبئك بها إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر لنا اول دعوة، ثم جاء اعرابي فشغله حتى قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتبعته، فلما اشفقت ان يسبقني إلى منزله، ضربت بقدمي الارض، فالتفت إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من هذا؟ ابو إسحاق؟" , قال: قلت: نعم يا رسول الله , قال:" فمه؟" , قال: قلت: لا والله، إلا انك ذكرت لنا اول دعوة، ثم جاء هذا الاعرابي فشغلك , قال:" نعم، دعوة ذي النون إذ هو في بطن الحوت , لا إله إلا انت سبحانك إني كنت من الظالمين سورة الانبياء آية 87 , فإنه لم يدع بها مسلم ربه في شيء قط إلا استجاب له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي وَالِدِي مُحَمَّدٌ , عَنْ أَبِيه سَعْدٍ ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَمَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنِّي، ثُمَّ لَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَأَتَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ حَدَثَ فِي الْإِسْلَامِ شَيْءٌ؟ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: لَا، وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنِّي مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ آنِفًا فِي الْمَسْجِدِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَمَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنِّي، ثُمَّ لَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ , قَالَ: فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى عُثْمَانَ، فَدَعَاهُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَكُونَ رَدَدْتَ عَلَى أَخِيكَ السَّلَامَ؟ قَالَ عُثْمَانُ: مَا فَعَلْتُ , قَالَ سَعْدٌ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: حَتَّى حَلَفَ وَحَلَفْتُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ ذَكَرَ , فَقَالَ: بَلَى، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، إِنَّكَ مَرَرْتَ بِي آنِفًا وَأَنَا أُحَدِّثُ نَفْسِي بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا وَاللَّهِ مَا ذَكَرْتُهَا قَطُّ إِلَّا تَغَشَّى بَصَرِي وَقَلْبِي غِشَاوَةٌ , قَالَ: قَالَ سَعْدٌ: فَأَنَا أُنْبِئُكَ بِهَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ، ثُمَّ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَشَغَلَهُ حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعْتُهُ، فَلَمَّا أَشْفَقْتُ أَنْ يَسْبِقَنِي إِلَى مَنْزِلِهِ، ضَرَبْتُ بِقَدَمِي الْأَرْضَ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا؟ أَبُو إِسْحَاقَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" فَمَهْ؟" , قَالَ: قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ، إِلَّا أَنَّكَ ذَكَرْتَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ، ثُمَّ جَاءَ هَذَا الْأَعْرَابِيُّ فَشَغَلَكَ , قَالَ:" نَعَمْ، دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ هُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ , لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنبياء آية 87 , فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا مُسْلِمٌ رَبَّهُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ لَهُ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں میرا گذر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا، میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے دو مرتبہ کہا کہ امیر المومنین! کیا اسلام میں کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں ابھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے مسجد میں گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ اپنے بھائی کے سلام کا جواب دینے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تو ایسا نہیں کیا، میں نے کہا: کیوں نہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی، میں نے بھی قسم کھا لی، تھوڑی دیر بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو یاد آگیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں! ایسا ہوا ہے، میں اللہ سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں، آپ ابھی ابھی میرے پاس سے گذرے تھے، دراصل میں اس وقت ایک بات سوچ رہا تھا جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، اور واللہ! جب بھی مجھے وہ بات یاد آتی ہے میری آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور میرے دل پر پردہ آجاتا ہے (یعنی مجھے اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی)۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اس کے بارے بتاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی گفتگو کی ابتداء میں ایک دعا کا ذکر چھیڑا، تھوڑی دیر کے بعد ایک دیہاتی آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر لیا، یہاں تک کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا گیا، جب مجھے اندیشہ ہوا کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچ چکے ہوں گے، تو میں نے زور سے اپنا پاؤں زمین پر مارا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: ”کون ہے؟ ابواسحاق ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکنے کے لئے فرمایا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سامنے ابتداء میں ایک دعا کا تذکرہ کیا تھا، بعد میں اس دیہاتی نے آ کر آپ کو اپنی طرف مشغول کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! وہ سیدنا یونس علیہ السلام کی دعا ہے جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی، یعنی «لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ» کوئی بھی مسلمان جب بھی کسی معاملے میں ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعا کرے وہ دعا ضرور قبول ہوگی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا سليمان بن بلال ، حدثنا الجعيد بن عبد الرحمن ، عن عائشة بنت سعد , عن ابيها , ان عليا خرج مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى جاء ثنية الوداع، وعلي يبكي، يقول: تخلفني مع الخوالف؟ فقال:" اوما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا النبوة؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهَا , أَنَّ عَلِيًّا خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَ ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ، وَعَلِيٌّ يَبْكِي، يَقُولُ: تُخَلِّفُنِي مَعَ الْخَوَالِفِ؟ فَقَالَ:" أَوَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا النُّبُوَّةَ؟".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچے تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھی، صرف نبوت کا فرق ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کر دے۔“ کسی نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نصف دن سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: پانچ سو سال۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى مريم ولانقطاعه، فإن رواية راشد عن سعد منقطعة
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کر دے۔“ کسی نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نصف دن سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: پانچ سو سال۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، حدثنا ابو بكر بن عبد الله ، عن راشد بن سعد عن سعد بن ابي وقاص ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية: هو القادر على ان يبعث عليكم عذابا من فوقكم او من تحت ارجلكم سورة الانعام آية 65، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنها كائنة ولم يات تاويلها بعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ سورة الأنعام آية 65، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهَا كَائِنَةٌ وَلَمْ يَأْتِ تَأْوِيلُهَا بَعْدُ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا: «﴿هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ﴾ [الأنعام: 65] »”اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیج دے۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی اس کی تاویل ظاہر ہونے کا وقت نہیں آیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف أبى بكر بن عبدالله ولانقطاعه، فإن رواية راشد عن سعد منقطعة
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہو جائیں، اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے، اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، معاذ التيمي لم يرو عنه غير سعد بن إبراهيم، ذكره ابن حبان فى الثقات وفي صحيحه
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب , وسعد , قالا: حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن جده ، قال سعد عن إبراهيم بن عبد الرحمن , قال: سمعت سعد بن ابي وقاص , يقول: لقد رايت عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعن يساره يوم احد، رجلين عليهما ثياب بيض يقاتلان عنه كاشد القتال، ما رايتهما قبل ولا بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , وَسَعْدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ سَعْدٌ عن إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَنْ يَسَارِهِ يَوْمَ أُحُدٍ، رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي، عن صالح ، قال ابن شهاب : اخبرني عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد ، ان محمد بن سعد بن ابي وقاص اخبره , ان اباه سعد بن ابي وقاص ، قال: استاذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه، عالية اصواتهن، فلما استاذن قمن يبتدرن الحجاب، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني فدخل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال عمر اضحك الله سنك يا رسول الله , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، فلما سمعن صوتك، ابتدرن الحجاب"، قال عمر: فانت يا رسول الله كنت احق ان يهبن، , ثم قال عمر اي عدوات انفسهن، اتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلن: نعم، انت اغلظ وافظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده، ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا، إلا سلك فجا غير فجك" , قال عبد الله: قال ابي: وقال يعقوب L8513: ما احصي ما سمعته، يقول: حدثنا صالح، عن ابن شهاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ، عَالِيَةٌ أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فَدَخَلَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ، ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ"، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، , ثُمَّ قَالَ عُمَرُ أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ، أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ" , قال عبد الله: قال أَبي: وقَالَ يَعْقُوبُ L8513: مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کر لیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن الجعد بن اوس ، قال: حدثتني عائشة بنت سعد ، قالت: قال سعد : اشتكيت شكوى لي بمكة، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، قال: قلت: يا رسول الله، إني قد تركت مالا، وليس لي إلا ابنة واحدة، افاوصي بثلثي مالي واترك لها الثلث؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالنصف، واترك لها النصف؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالثلث واترك لها الثلثين؟ قال:" الثلث، والثلث كثير" , ثلاث مرار، قال: فوضع يده على جبهته، فمسح وجهي وصدري وبطني , وقال:" اللهم اشف سعدا، واتم له هجرته" , فما زلت يخيل إلي باني اجد برد يده على كبدي حتى الساعة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ سَعْدٍ ، قَالَتْ: قَالَ سَعْدٌ : اشْتَكَيْتُ شَكْوًى لِي بِمَكَّةَ، فَدَخَلَ عَلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ مَالًا، وَلَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ، وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ" , ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَمَسَحَ وَجْهِي وَصَدْرِي وَبَطْنِي , وَقَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ" , فَمَا زِلْتُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ بِأَنِّي أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي حَتَّى السَّاعَةِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا)“، پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعا کی کہ ”اے اللہ! سعد کو شفاء دے، اور اس کی ہجرت کو تام فرما۔“ مجھے آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان , عن عبد الله بن ابي سلمة , ان سعدا سمع رجلا يقول: لبيك ذا المعارج , فقال: إنه لذو المعارج، ولكنا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نقول ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ , أَنَّ سَعْدًا سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ , فَقَالَ: إِنَّهُ لَذُو الْمَعَارِجِ، وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَقُولُ ذَلِكَ.
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: «لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ» تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا، لیکن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي سلمة لم يدرك سعداً
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“ وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبدالله بن أبي نهيك لايعرف
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالرحمن ضعيف ثم هو لم يدرك سعداً وللجملة الأخيرة منه شاهد مرسل عن الحسن البصري وزياد بن جبير. ويؤيده حديث أبي هريره بلفظ : «اللهم ارزق آل محمد قوتاً.» أخرجه البخاري: 6460 ومسلم: 1055، واللفظ للبخاري .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام , عن ابيه , عن سعد ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه يعوده، وهو مريض، فقال: يا رسول الله، الا اوصي بمالي كله؟ قال:" لا" , قال: فبالشطر؟ قال:" لا" , قال: فبالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كبير، او كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَعْدٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ، وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَبِالشَّطْرِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَبِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ، أَوْ كَثِيرٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کی اللہ کے راستہ میں وصیت نہ کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ عرض کیا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں؟ فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی کی وصیت کر دو، اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 56، م: 1628. وهذا إسناد ضعيف، عروة بن الزبير لم يسمع من سعد .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سعد بن إبراهيم ، عن عامر بن سعد , عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال له:" إنك مهما انفقت على اهلك من نفقة، فإنك تؤجر فيها، حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لَهُ:" إِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ عَلَى أَهْلِكَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّكَ تُؤْجَرُ فِيهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے اہل خانہ پر جو کچھ بھی خرچ کرو گے، تمہیں اس پر ثواب ملے گا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے، تمہیں اس پر بھی ثواب ملے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن مصعب بن سعد , عن ابيه ، قال: قلت: يا رسول الله، اي الناس اشد بلاء؟ قال:" الانبياء، ثم الصالحون، ثم الامثل فالامثل من الناس، يبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان في دينه صلابة، زيد في بلائه، وإن كان في دينه رقة، خفف عنه، وما يزال البلاء بالعبد حتى يمشي على ظهر الارض ليس عليه خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُونَ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ، يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَابَةٌ، زِيدَ فِي بَلَائِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ، خُفِّفَ عَنْهُ، وَمَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَمْشِيَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ لَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر وسفيان ، عن سعد بن إبراهيم ، قال سفيان: عن عامر بن سعد ، وقال مسعر: عن بعض آل سعد , عن سعد ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه يعوده، وهو مريض بمكة، فقلت: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا" , قلت: فبالشطر؟ قال:" لا" , قلت: فبالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كبير، او كثير، إنك ان تدع وارثك غنيا، خير من ان تدعه فقيرا يتكفف الناس، وإنك مهما انفقت على اهلك من نفقة، فإنك تؤجر فيها، حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك" , قال: ولم يكن له يومئذ إلا ابنة، فذكر سعد الهجرة، فقال:" يرحم الله ابن عفراء، ولعل الله ان يرفعك حتى ينتفع بك قوم، ويضر بك آخرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ سُفْيَانُ: عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، وَقَالَ مِسْعَرٌ: عَنْ بَعْضِ آلِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ، وَهُوَ مَرِيضٌ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: فَبِالشَّطْرِ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: فَبِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ، أَوْ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَارِثَكَ غَنِيًّا، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُ فَقِيرًا يَتَكَفَّفُ النَّاسَ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ عَلَى أَهْلِكَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّكَ تُؤْجَرُ فِيهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ" , قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ، فَذَكَرَ سَعْدٌ الْهِجْرَةَ، فَقَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَرْفَعُكَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ قَوْمٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے۔“ نیز راوی کہتے ہیں کہ اس وقت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی ہی تھی، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں اتنی بلندی عطاء کرے کہ ایک قوم کو تم سے فائدہ ہو اور دوسروں کو نقصان ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن مخراق ، قال: سمعت ابا عباية ، عن مولى لسعد , ان سعدا سمع ابنا له يدعو، وهو يقول: اللهم إني اسالك الجنة ونعيمها وإستبرقها، ونحوا من هذا، واعوذ بك من النار وسلاسلها واغلالها , فقال: لقد سالت الله خيرا كثيرا، وتعوذت بالله من شر كثير، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إنه سيكون قوم يعتدون في الدعاء" , وقرا هذه الآية ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين سورة الاعراف آية 55، وإن بحسبك ان تقول: اللهم إني اسالك الجنة، وما قرب إليها من قول او عمل، واعوذ بك من النار، وما قرب إليها من قول او عمل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبَايَةَ ، عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ , أَنَّ سَعْدًا سَمِعَ ابْنًا لَهُ يَدْعُو، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعِيمَهَا وَإِسْتَبْرَقَهَا، وَنَحْوًا مِنْ هَذَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا , فَقَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ خَيْرًا كَثِيرًا، وَتَعَوَّذْتَ بِاللَّهِ مِنْ شَرٍّ كَثِيرٍ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ" , وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ سورة الأعراف آية 55، وَإِنَّ بحَسْبَكَ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ.
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائے گی۔“ اور یہ آیت تلاوت فرمائی: ” «﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ [الأعراف: 55] »”تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ»”اے اللہ! میں آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي سعد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا، اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن همام ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن محمد بن سعد , عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه بمكة وهو مريض، فقال: إنه ليس لي إلا ابنة واحدة، فاوصي بمالي كله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا" , قال: فاوصي بنصفه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا" , قال: فاوصي بثلثه؟ قال:" الثلث، والثلث كبير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَال: إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا" , قَالَ: فَأُوصِي بِنِصْفِهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا" , قَالَ: فَأُوصِي بِثُلُثِهِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن سعد ، عن عامر بن سعد عن ابيه ، قال: جاءه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده وهو بمكة، وهو يكره ان يموت بالارض التي هاجر منها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يرحم الله سعد ابن عفراء، يرحم الله سعد ابن عفراء" , ولم يكن له إلا ابنة واحدة، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا" , قال: فالنصف؟ قال:" لا" , قال: فالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إنك ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس في ايديهم، وإنك مهما انفقت من نفقة، فإنها صدقة، حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك، ولعل الله ان يرفعك فينتفع بك ناس، ويضر بك آخرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ وَهُوَ بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَاءَ، يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَاءَ" , وَلَمْ يَكُنْ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَالنِّصْفُ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ جس علاقے سے وہ ہجرت کر چکے ہیں وہیں ان کا انتقال ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ”سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔“ اور ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں صدقہ کا ثواب ملے گا، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو تم اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں رفعتیں عطاء فرمائے اور تمہارے ذریعے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور بہت سے لوگوں (کافروں) کو نقصان۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، انبانا علي بن زيد , عن سعيد بن المسيب ، قال: قلت لسعد بن مالك إني اريد ان اسالك عن حديث، وانا اهابك ان اسالك عنه , فقال: لا تفعل يا ابن اخي , إذا علمت ان عندي علما فسلني عنه ولا تهبني , قال: فقلت: قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي حين خلفه بالمدينة في غزوة تبوك , فقال سعد: خلف النبي صلى الله عليه وسلم عليا بالمدينة في غزوة تبوك، فقال: يا رسول الله، اتخلفني في الخالفة في النساء والصبيان؟ فقال:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟" , قال: بلى يا رسول الله , قال: فادبر علي مسرعا كاني انظر إلى غبار قدميه يسطع , وقد قال حماد: فرجع علي مسرعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ حَدِيثٍ، وَأَنَا أَهَابُكَ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْهُ , فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ يَا ابْنَ أَخِي , إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِي عِلْمًا فَسَلْنِي عَنْهُ وَلَا تَهَبْنِي , قَالَ: فَقُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ حِينَ خَلَّفَهُ بِالْمَدِينَةِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ , فَقَالَ سَعْدٌ: خَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا بِالْمَدِينَةِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُخَلِّفُنِي فِي الْخَالِفَةِ فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟" , قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: فَأَدْبَرَ عَلِيٌّ مُسْرِعًا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى غُبَارِ قَدَمَيْهِ يَسْطَعُ , وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: فَرَجَعَ عَلِيٌّ مُسْرِعًا.
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انہوں نے فرمایا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے ایک بات کا علم ہے تو تم مجھ سے بےتکلف ہو کر سوال کرو اور مت ڈرو، میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تیزی سے واپس چلے گئے، مجھے آج بھی ان کے قدموں سے اڑنے والا غبار اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا سليم بن حيان ، حدثني عكرمة بن خالد ، حدثني يحيى بن سعد , عن ابيه ، قال: ذكر الطاعون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" رجز اصيب به من كان قبلكم، فإذا كان بارض، فلا تدخلوها وإذا كان بها وانتم بها، فلا تخرجوا منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ الطَّاعُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" رِجْزٌ أُصِيبَ بِهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ، فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا كَانَ بِهَا وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218. وهذا إسناد ضعيف، يحيي بن سعد لم يذكر فيه جرح ولا تعديل .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی «اَلْحَمْدُ لِلّٰه» کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا محمد بن راشد ، عن مكحول , عن سعد بن مالك ، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يكون حامية القوم، ايكون سهمه وسهم غيره سواء؟ قال:" ثكلتك امك يا ابن ام سعد، وهل ترزقون وتنصرون إلا بضعفائكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ مَكْحُولٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَكُونُ حَامِيَةَ الْقَوْمِ، أَيَكُونُ سَهْمُهُ وَسَهْمُ غَيْرِهِ سَوَاءً؟ قَالَ:" ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ أُمِّ سَعْدٍ، وَهَلْ تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جو اپنی قوم میں کم حیثیت شمار ہوتا ہو، کیا اس کا اور دوسرے آدمی کا حصہ برابر ہو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس ہے، کیا کمزوروں کے علاوہ بھی کسی اور کے ذریعے تمہیں رزق ملتا اور تمہاری مدد ہوتی ہے؟“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 2896. وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مكحول لم يسمع من سعد .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن بهدلة ، قال: سمعت مصعب بن سعد يحدث , عن سعد ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اي الناس اشد بلاء؟ فقال:" الانبياء، ثم الامثل فالامثل، فيبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان رقيق الدين، ابتلي على حسب ذاك، وإن كان صلب الدين، ابتلي على حسب ذاك، قال فما تزال البلايا بالرجل حتى يمشي في الارض وما عليه خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ , عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ فَقَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ رَقِيقَ الدِّينِ، ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ ذَاكَ، وَإِنْ كَانَ صُلْبَ الدِّينِ، ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ ذَاكَ، قَالَ فَمَا تَزَالُ الْبَلَايَا بِالرَّجُلِ حَتَّى يَمْشِيَ فِي الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“)۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي عبد الله مولى جهينة , قال: سمعت مصعب بن سعد يحدث عن سعد , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" ايعجز احدكم ان يكسب في اليوم الف حسنة؟" , قالوا: ومن يطيق ذلك؟ قال:" يسبح مئة تسبيحة، فيكتب له الف حسنة، وتمحى عنه الف سيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى جُهَيْنَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عن سعد , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ فِي الْيَوْمِ أَلْفَ حَسَنَةٍ؟" , قَالَوا: وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ؟ قَالَ:" يُسَبِّحُ مِئَةَ تَسْبِيحَةٍ، فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ، وَتُمْحَى عَنْهُ أَلْفُ سَيِّئَةٍ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم الاحول ، قال: سمعت ابا عثمان ، قال: سمعت سعدا وهو اول من رمى بسهم في سبيل الله، وابا بكرة تسور حصن الطائف في ناس , فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالا: سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم , وهو يقول:" من ادعى إلى اب غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَبَا بَكْرَةَ تَسَوَّرَ حِصْنَ الطَّائِفِ فِي نَاسٍ , فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا: سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ يَقُولُ:" مَنْ ادَّعَى إِلَى أَبٍ غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ".
ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ - جو اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکنے والے تھے - اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ - جو قلعہ طائف کی شہر پناہ پر چڑھنے والے تھے - دونوں سے یہ سنا ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن إسماعيل ، قال: سمعت قيس بن ابي حازم ، قال: قال سعد : لقد رايتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سابع سبعة،" ما لنا طعام إلا ورق الحبلة، حتى إن احدنا ليضع كما تضع الشاة، ما يخالطه شيء، ثم اصبحت بنو اسد يعزروني على الإسلام، لقد خسرت إذن وضل سعيي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَةٍ،" َمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، مَا يُخَالِطُهُ شَيْءٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الْإِسْلَامِ، لَقَدْ خَسِرْتُ إِذَنْ وَضَلَّ سَعْيِي.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے آپ کو سات میں کا ساتواں آدمی پایا ہے (جس نے اسلام قبول کیا ہو)، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور پتوں کے کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہیں ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن أبى حميد .
(حديث مرفوع) حدثنا الحسين بن علي ، عن زائدة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، قال: قال سعد في سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الثلث: اتاني يعودني، قال: فقال لي:" اوصيت؟" , قال: قلت: نعم , جعلت مالي كله في الفقراء والمساكين وابن السبيل , قال:" لا تفعل" , قلت: إن ورثتي اغنياء، قلت الثلثين؟ قال:" لا" , قلت فالشطر؟ قال:" لا" , قلت الثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: قَال سَعْدٌ فِيَّ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّلُثَ: أَتَانِي يَعُودُنِي، قَالَ: فَقَالَ لِي:" أَوْصَيْتَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ , جَعَلْتُ مَالِي كُلَّهُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ , قَالَ:" لَا تَفْعَلْ" , قُلْتُ: إِنَّ وَرَثَتِي أَغْنِيَاءُ، قُلْتُ الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ فَالشَّطْرَ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ الثُّلُثَ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وصیت میں ایک تہائی کی مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حوالے سے مقرر فرمائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عیادت کے لئے تشریف لائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ”کیا تم نے وصیت کر دی؟“ میں نے کہا: جی! میں نے اپنا سارا مال فقراء، مساکین اور مسافروں کے نام وقف کرنے کی وصیت کر دی ہے، فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ میرے ورثاء غنی ہیں، بہرحال! میں دوتہائی کی وصیت کر دیتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کا ذکر کیا، فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے تہائی کا ذکر کیا، فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی صحیح ہے، اور یہ بھی زیادہ ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مرنے کے بعد مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکل آنے، بیماریوں کے متعدی ہونے، اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔“
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، اس سال انہوں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا، ضحاک کہنے لگے کہ حج تمتع تو وہی آدمی کر سکتا ہے جو اللہ کے حکم سے نا واقف اور جاہل ہو، اس پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھتیجے! تم نے یہ بہت بری بات کہی، ضحاک کہنے لگے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تو اس سے منع کیا ہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح حج کیا ہے کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کر لیا، اور ہم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، قال: قال سعد وقال مرة: سمعت سعدا , يقول: سمعته اذناي، ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم:" انه من ادعى ابا غير ابيه، وهو يعلم انه غير ابيه، فالجنة عليه حرام" , قال: فلقيت ابا بكرة ، فحدثته، فقال: وانا سمعته اذناي، ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ وَقَالَ مَرَّةً: سَمِعْتُ سَعْدًا , يَقُولُ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ مَنْ ادَّعَى أَبًا غَيْرَ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ" , قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: وَأَنَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے، اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھی۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن عكرمة ، عن ابن سعد , عن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال في الطاعون:" إذا وقع بارض فلا تدخلوها، وإذا كنتم بها فلا تفروا منه" , قال شعبة: وحدثني هشام ابو بكر انه عكرمة بن خالد L5699.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي الطَّاعُونِ:" إِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا كُنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ" , قَالَ شُعْبَةُ: وَحَدَّثَنِي هِشَامٌ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ L5699.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے متعلق فرمایا: ”جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218 . وهذا إسناد ضعيف، يحيى بن سعد لم يذكر فيه جرح ولا تعديل .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن علي بن زيد ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، قال: قلت لسعد بن مالك : إنك إنسان فيك حدة، وانا اريد ان اسالك , فقال: ما هو؟ قال: قلت: حديث علي , قال: فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم , قال لعلي:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟" , قال: رضيت، ثم قال: بلى، بلى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ : إِنَّكَ إِنْسَانٌ فِيكَ حِدَّةٌ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ , فقَالَ: مَا هُوَ؟ قَالَ: قُلْتُ: حَدِيثُ عَلِيٍّ , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِعَلِيٍّ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟" , قَالَ: رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، بَلَى.
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کیونکہ آپ کے مزاج میں حدت ہے، انہوں نے فرمایا: کون سی حدیث؟ میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟“ انہوں نے کہا: میں خوش ہوں، پھر دو مرتبہ کہا: کیوں نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد .
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لوگوں کو آپ سے ہر چیز حتی کہ نماز کے معاملے میں بھی شکایات ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
عبداللہ بن رقیم کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دینے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة عبدالله بن الرقيم، وعبدالله بن شريك مختلف فيه .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد اچانک سفر سے واپس آ کر اپنے اہل خانہ کو پریشان کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، ابن شهاب لم يدرك سعداً
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نا پسندیدہ قرار دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا عثمان بن حكيم ، حدثنا عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابيه ، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى مررنا على مسجد بني معاوية، فدخل فصلى ركعتين وصلينا معه، وناجى ربه عز وجل طويلا، قال:" سالت ربي عز وجل ثلاثا: سالته ان لا يهلك امتي بالغرق فاعطانيها، وسالته ان لا يهلك امتي بالسنة فاعطانيها، وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فمنعنيها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَرَرْنَا عَلَى مَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ، فَدَخَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَنَاجَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ طَوِيلًا، قَالَ:" سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا: سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ہمارا گذر بنو معاویہ کی مسجد پر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعا فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا: ”میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کر لی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی، اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، لیکن اللہ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى , ويحيى بن سعيد ، قال يحيى , قال: حدثني رجل كنت اسميه، فنسيت اسمه، عن عمر بن سعد , قال: كانت لي حاجة إلى ابي سعد , قال: وحدثنا ابو حيان ، عن مجمع , قال: كان لعمر بن سعد إلى ابيه حاجة، فقدم بين يدي حاجته كلاما مما يحدث الناس يوصلون، لم يكن يسمعه، فلما فرغ، قال: يا بني، قد فرغت من كلامك؟ قال: نعم , قال: ما كنت من حاجتك ابعد، ولا كنت فيك ازهد مني، منذ سمعت كلامك هذا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" سيكون قوم ياكلون بالسنتهم كما تاكل البقرة من الارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى , وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى , قال: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كُنْتُ أُسَمِّيهِ، فَنَسِيتُ اسْمَهُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: كَانَتْ لِي حَاجَةٌ إِلَى أَبِي سَعْدٍ , قَالَ: وحَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ مُجَمِّعٍ , قَالَ: كَانَ لِعُمَرَ بْنِ سَعْدٍ إِلَى أَبِيهِ حَاجَةٌ، فَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِهِ كَلَامًا مِمَّا يُحَدِّثُ النَّاسُ يُوصِلُونَ، لَمْ يَكُنْ يَسْمَعُهُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: يَا بُنَيَّ، قَدْ فَرَغْتَ مِنْ كَلَامِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: مَا كُنْتَ مِنْ حَاجَتِكَ أَبْعَدَ، وَلَا كُنْتُ فِيكَ أَزْهَدَ مِنِّي، مُنْذُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ هَذَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" سَيَكُونُ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا تَأْكُلُ الْبَقَرَةُ مِنَ الْأَرْضِ".
عمر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے والد سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کوئی کام پڑ گیا، انہوں نے اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹا! آپ اپنی بات پوری کر چکے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: تم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ دور نہیں ہو (میں تمہاری ضرورت پوری کر دوں گا)، لیکن جب سے میں نے تم سے یہ بات سنی ہے، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وفي الإسناد الأول ضعف لجهالة الذى نسي اسمه أبو حيان يحيى بن سعيد. والسند الثاني ضعيف لانقطاعه ، مجمع لم يدرك أحداً من الصحابة .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: شكا اهل الكوفة سعدا إلى عمر، فقالوا: لا يحسن يصلي , قال: فساله عمر، فقال: إني اصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم اركد في الاوليين، واحذف في الاخريين , قال: ذلك الظن بك يا ابا إسحاق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي , قَالَ: فَسَأَلَهُ عُمَرُ، فَقَالَ: إِنِّي أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ , قَالَ: ذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق ہے، اور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من اكبر المسلمين في المسلمين جرما: رجلا سال عن شيء ونقر عنه، حتى انزل في ذلك الشيء تحريم من اجل مسالته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا: رَجُلًا سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ وَنَقَّرَ عَنْهُ، حَتَّى أُنْزِلَ فِي ذَلِكَ الشَّيْءِ تَحْرِيمٌ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا اور ناگوار گذرنے والے امور کو معلوم کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابيه , قال: اعطى النبي صلى الله عليه وسلم رجالا ولم يعط رجلا منهم شيئا، فقال سعد: يا نبي الله، اعطيت فلانا وفلانا، ولم تعط فلانا شيئا، وهو مؤمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" او مسلم"، حتى اعادها سعد ثلاثا، والنبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" او مسلم"، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني لاعطي رجالا، وادع من هو احب إلي منهم، فلا اعطيه شيئا، مخافة ان يكبوا في النار على وجوههم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: أَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالًا وَلَمْ يُعْطِ رَجُلًا مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَلَمْ تُعْطِ فُلَانًا شَيْئًا، وَهُوَ مُؤْمِنٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمٌ"، حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلَاثًا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" أَوْ مُسْلِمٌ"، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأُعْطِي رِجَالًا، وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُمْ، فَلَا أُعْطِيهِ شَيْئًا، مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان نہیں؟“ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ نہیں دیتا اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ”فویسق“ رکھا ہے (جو کہ فاسق کی تصغیر ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن ابيه ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فمرضت مرضا اشفيت على الموت، فعادني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنة لي، افاوصي بثلثي مالي؟ قال:" لا" , قلت: بشطر مالي؟ قال:" لا" , قلت: فثلث مالي؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إنك يا سعد ان تدع ورثتك اغنياء خير لك من ان تدعهم عالة يتكففون الناس، إنك يا سعد لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله تعالى إلا اجرت عليها، حتى اللقمة تجعلها في فم امراتك" , قال: قلت: يا رسول الله، اخلف بعد اصحابي؟ قال:" إنك لن تتخلف، فتعمل عملا تبتغي به وجه الله، إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك تخلف حتى ينفع الله بك اقواما، ويضر بك آخرين، اللهم امض لاصحابي هجرتهم، ولا تردهم على اعقابهم، لكن البائس سعد ابن خولة" رثى له رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان مات بمكة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ، فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: بِشَطْرِ مَالِي؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: فَثُلُثُ مَالِي؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ يَا سَعْدُ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، إِنَّكَ يَا سَعْدُ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِم امْرَأَتِكَ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَالَ:" إِنَّكَ لَنْ تَتَخَلَّفَ، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْفَعَ اللَّهُ بِكَ أَقْوَامًا، وَيَضُرَّ بِكَ آخَرِينَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ" رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَاتَ بِمَكَّةَ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے دجال کے اوصاف ضرور ذکر کئے ہیں، لیکن میں تمہارے سامنے اس کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، ابن إسحاق مدلس وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد , وعفان , قالا: حدثنا سليم بن حيان ، حدثنا عكرمة بن خالد , قال عفان: حدثني , عن يحيى بن سعد , عن سعد , ان الطاعون ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنه رجز اصيب به من كان قبلكم، فإذا كان بارض فلا تدخلوها، وإذا كنتم بارض، وهو بها، فلا تخرجوا منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنِي , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ , أَنَّ الطَّاعُونَ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ رِجْزٌ أُصِيبَ بِهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا كُنْتُمْ بِأَرْضٍ، وَهُوَ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا فليح ، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر ، قال: حدث عامر بن سعد عمر بن عبد العزيز ، وهو امير على المدينة ان سعدا , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اكل سبع تمرات عجوة ما بين لابتي المدينة حين يصبح، لم يضره يومه ذلك شيء حتى يمسي"، قال فليح: واظنه قد قال:" وإن اكلها حين يمسي، لم يضره شيء حتى يصبح" قال: فقال عمر يا عامر، انظر ما تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال عامر: والله ما كذبت على سعد، وما كذب سعد على رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنَّ سَعْدًا , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ حِينَ يُصْبِحُ، لَمْ يَضُرَّهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ شَيْءٌ حَتَّى يُمْسِيَ"، قَالَ فُلَيْحٌ: وَأَظُنُّهُ قَدْ قَالَ:" وَإِنْ أَكَلَهَا حِينَ يُمْسِي، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ حَتَّى يُصْبِحَ" قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ يَا عَامِرُ، انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ عَامِرٌ: وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ عَلَى سَعْدٍ، وَمَا كَذَبَ سَعْدٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا كثير بن زيد الاسلمي عن المطلب ، عن عمر بن سعد , عن ابيه ، انه قال: جاءه ابنه عامر , فقال: اي بني، افي الفتنة تامرني ان اكون راسا؟ لا والله حتى اعطى سيفا إن ضربت به مؤمنا نبا عنه، وإن ضربت به كافرا قتله، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله عز وجل يحب الغني الخفي التقي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ الْأَسْلَمِيُّ عَنِ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَهُ ابْنُهُ عَامِرٌ , فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، أَفِي الْفِتْنَةِ تَأْمُرُنِي أَنْ أَكُونَ رَأْسًا؟ لَا وَاللَّهِ حَتَّى أُعْطَى سَيْفًا إِنْ ضَرَبْتُ بِهِ مُؤْمِنًا نَبَا عَنْهُ، وَإِنْ ضَرَبْتُ بِهِ كَافِرًا قَتَلَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ التَّقِيَّ".
عمر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عامر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: بیٹا! کیا تم مجھے شورش کے کاموں کا سرغنہ بننے کے لئے کہتے ہو؟ واللہ! ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جائے اور میں اس سے کسی مومن کو قتل کر دوں تو وہ اس کی خبر اڑا دے، اور اگر کسی کافر کو قتل کر دوں تو وہ بھی اس پر پل پڑے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو، اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والإسناد فيه قلب، فالذي روى القصة هو عامر بن سعد، والذي جاء إلى سعد يأمره أن يكون رأساً هو عمر بن سعد، وقد تقدم على الصواب من غير هذا الطريق برقم: 1441 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا، جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن العيزار ، عن عمر بن سعد , عن ابيه سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" عجبت للمسلم إذا اصابه خير، حمد الله وشكر، وإذا اصابته مصيبة، احتسب وصبر، المسلم يؤجر في كل شيء، حتى في اللقمة يرفعها إلى فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَيْزَارِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" عَجِبْتُ لِلْمُسْلِمِ إِذَا أَصَابَهُ خَيْرٌ، حَمِدَ اللَّهَ وَشَكَرَ، وَإِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ، احْتَسَبَ وَصَبَرَ، الْمُسْلِمُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ، حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِيهِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن قتادة , وعلي بن زيد بن جدعان , قالا: حدثنا ابن المسيب ، حدثني ابن لسعد بن ابي وقاص ، حدثنا عن ابيه ، قال: فدخلت على سعد، فقلت حديثا حدثته عنك حين استخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا على المدينة؟ قال: فغضب، فقال: من حدثك به؟ فكرهت ان اخبره ان ابنه حدثنيه فيغضب عليه , ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج في غزوة تبوك استخلف عليا على المدينة، فقال علي: يا رسول الله، ما كنت احب ان تخرج وجها إلا وانا معك , فقال:" او ما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟ غير انه لا نبي بعدي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ , وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، حَدَّثَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ أَبي وقّاص ، حدَّثَنا عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: فدَخَلْتُ عَلَى سَعْدٍ، فَقُلْتُ حَدِيثًا حُدِّثْتُهُ عَنْكَ حِينَ اسْتَخْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا عَلَى الْمَدِينَةِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ، فَقَالَ: مَنْ حَدَّثَكَ بِهِ؟ فَكَرِهْتُ أَنْ أُخْبِرَهُ أَنَّ ابْنَهُ حَدَّثَنِيهِ فَيَغْضَبَ عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ اسْتَخْلَفَ عَلِيًّا عَلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ تَخْرُجَ وَجْهًا إِلَّا وَأَنَا مَعَكَ , فَقَالَ:" أَو َمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے نے مجھے اپنے والد کے حوالے سے ایک حدیث سنائی، میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے مدینہ منورہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا؟ وہ یہ سن کر غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان کے بیٹے کا نام لینا مناسب نہ سمجھا، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میری خواہش تو یہی ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں، میں آپ کے ہمراہ رہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ شخص کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے“، سوائے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف , قال عبد الله: وسمعته انا من هارون , حدثنا عبد الله بن وهب , حدثني مخرمة , عن ابيه , عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، قال: سمعت سعدا ، وناسا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقولون: كان رجلان اخوان في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وكان احدهما افضل من الآخر، فتوفي الذي هو افضلهما، ثم عمر الآخر بعده اربعين ليلة، ثم توفي، فذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فضل الاول على الآخر، , فقال:" الم يكن يصلي؟" , فقالوا: بلى يا رسول الله، فكان لا باس به , فقال:" ما يدريكم ماذا بلغت به صلاته؟" , ثم قال عند ذلك:" إنما مثل الصلوات كمثل نهر جار بباب رجل، غمر عذب، يقتحم فيه كل يوم خمس مرات، فما ترون يبقي ذلك من درنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , حَدَّثَنِي مَخْرَمَةُ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا ، وَنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ: كَانَ رَجُلَانِ أَخَوَانِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ أَحَدُهُمَا أَفْضَلَ مِنَ الْآخَرِ، فَتُوُفِّيَ الَّذِي هُوَ أَفْضَلُهُمَا، ثُمَّ عُمِّرَ الْآخَرُ بَعْدَهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ، فَذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْأَوَّلِ عَلَى الْآخَرِ، , فَقَالَ:" أَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي؟" , فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَانَ لَا بَأْسَ بِهِ , فَقَالَ:" مَا يُدْرِيكُمْ مَاذَا بَلَغَتْ بِهِ صَلَاتُهُ؟" , ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ:" إِنَّمَا مَثَلُ الصَّلَوَاتِ كَمَثَلِ نَهَرٍ جَارٍ بِبَابِ رَجُلٍ، غَمْرٍ عَذْبٍ، يَقْتَحِمُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، فَمَا تُرَوْنَ يُبْقِي ذَلِكَ مِنْ دَرَنِهِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک دوسرے سے افضل تھا، اس افضل شخص کا پہلے انتقال ہو گیا اور دوسرا بھائی اس کے بعد چالیس دن تک مزید زندہ رہا، پھر وہ بھی فوت ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے پہلے کے افضل ہونے کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ دوسرا بھائی نماز نہیں پڑھتا تھا؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا خبر کہ اس کی نمازوں نے اسے کہاں تک پہنچا دیا؟“ پھر فرمایا کہ ”نماز کی مثال اس جاری نہر کی سی ہے جس کا پانی میٹھا اور شیریں ہو، اور وہ تمہارے گھر کے دروازے پر بہہ رہی ہو، اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غوطہ لگاتا ہو، تمہارا کیا خیال ہے، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل باقی رہے گا؟“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني حبيب بن ابي ثابت ، قال: قدمت المدينة، فبلغنا ان الطاعون وقع بالكوفة، قال: فقلت: من يروي هذا الحديث؟ فقيل: عامر بن سعد، قال: وكان غائبا، فلقيت إبراهيم بن سعد، فحدثني انه سمع اسامة بن زيد يحدث سعدا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا وقع الطاعون بارض فلا تدخلوها، وإذا وقع وانتم بها، فلا تخرجوا منها" , قال: قلت: اانت سمعت اسامة؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَبَلَغَنَا أَنَّ الطَّاعُونَ وَقَعَ بِالْكُوفَةِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ يَرْوِي هَذَا الْحَدِيثَ؟ فَقِيلَ: عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: وَكَانَ غَائِبًا، فَلَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا وَقَعَ الطَّاعُونُ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا" , قَالَ: قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ أُسَامَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، پیچھے سے خبر معلوم ہوئی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مضمون کی حدیث یہاں کون بیان کرتا ہے؟ لوگوں نے عامر بن سعد کا نام لیا، لیکن وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے، پھر میری ملاقات ابراہیم بن سعد سے ہوئی، انہوں نے مجھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی قوم میں طاعون کی وباء پھیل جائے تو تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں پہلے سے موجود ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھیل جائے تو وہاں سے نکلو مت۔“ میں نے ابراہیم سے پوچھا: کیا آپ نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت خود سنی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، انبانا ابو بكر ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن مصعب بن سعد , عن سعد بن مالك , قال: قال يا رسول الله، قد شفاني الله من المشركين، فهب لي هذا السيف , قال:" إن هذا السيف ليس لك ولا لي، ضعه" , قال: فوضعته، ثم رجعت، قلت: عسى ان يعطى هذا السيف اليوم من لم يبل بلائي، قال: إذا رجل يدعوني من ورائي، قال: قلت: قد انزل في شيء؟ قال:" كنت سالتني السيف، وليس هو لي، وإنه قد وهب لي، فهو لك" , قال: وانزلت هذه الآية: يسالونك عن الانفال قل الانفال لله والرسول سورة الانفال آية 1.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شَفَانِي اللَّهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَهَبْ لِي هَذَا السَّيْفُ , قَالَ:" إِنَّ هَذَا السَّيْفَ لَيْسَ لَكَ وَلَا لِي، ضَعْهُ" , قَالَ: فَوَضَعْتُهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، قُلْتُ: عَسَى أَنْ يُعْطَى هَذَا السَّيْفُ الْيَوْمَ مَنْ لَمْ يُبْلِ بَلَائِي، قَالَ: إِذَا رَجُلٌ يَدْعُونِي مِنْ وَرَائِي، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ؟ قَالَ:" كُنْتَ سَأَلْتَنِي السَّيْفَ، وَلَيْسَ هُوَ لِي، وَإِنَّهُ قَدْ وُهِبَ لِي، فَهُوَ لَكَ" , قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ سورة الأنفال آية 1.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ نے آج مجھے مشرکین سے بچا لیا ہے، اس لئے آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تلوار تمہاری ہے اور نہ میری، اس لئے اسے یہیں رکھ دو۔“ چنانچہ میں وہ تلوار رکھ کر واپس چلا گیا اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے شخص کو عطاء فرما دیں جسے میری طرح کی آزمائش نہ آئی ہو، اتنی دیر میں مجھے پیچھے سے ایک آدمی کی آواز آئی جو مجھے بلا رہا تھا، میں نے سوچا کہ شاید میرے بارے کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی، واقعی یہ تلوار میری نہ تھی لیکن اب مجھے بطور ہبہ کے مل گئی ہے، اس لئے میں تمہیں دیتا ہوں۔“ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ﴾ [الأنفال: 1] » اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ”یہ لوگ آپ سے مال غنیمت کا سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده، حدثني عبد المتعال بن عبد الوهاب ، حدثني يحيى بن سعيد الاموي ، قال ابو عبد الرحمن , وحدثنا سعيد بن يحيى ، حدثنا ابي , حدثنا المجالد ، عن زياد بن علاقة ، عن سعد بن ابي وقاص ، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة جاءته جهينة، فقالوا: إنك قد نزلت بين اظهرنا فاوثق لنا، حتى ناتيك وتؤمنا، فاوثق لهم، فاسلموا، قال: فبعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجب ولا نكون مائة، وامرنا ان نغير على حي من بني كنانة إلى جنب جهينة، فاغرنا عليهم، وكانوا كثيرا فلجانا إلى جهينة، فمنعونا، وقالوا: لم تقاتلون في الشهر الحرام؟، فقلنا إنما نقاتل من اخرجنا من البلد الحرام، في الشهر الحرام، فقال بعضنا لبعض: ما ترون؟، فقال بعضنا: ناتي نبي الله صلى الله عليه وسلم فنخبره، وقال قوم: لا، بل نقيم هاهنا، وقلت انا في اناس معي: لا، بل ناتي عير قريش فنقتطعها، فانطلقنا إلى العير، وكان الفيء إذ ذاك من اخذ شيئا فهو له، فانطلقنا إلى العير، وانطلق اصحابنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبروه الخبر، فقام غضبانا محمر الوجه , فقال:" اذهبتم من عندي جميعا، وجئتم متفرقين؟ إنما اهلك من كان قبلكم الفرقة، لابعثن عليكم رجلا ليس بخيركم اصبركم على الجوع والعطش"، فبعث علينا عبد الله بن جحش الاسدي فكان اول امير امر في الإسلام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ , وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْمُجَالِدُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ جَاءَتْهُ جُهَيْنَةُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ قَدْ نَزَلْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَوْثِقْ لَنَا، حَتَّى نَأْتِيَكَ وَتُؤْمِنَّا، فَأَوْثَقَ لَهُمْ، فَأَسْلَمُوا، قَالَ: فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ وَلَا نَكُونُ مِائَةً، وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِيرَ عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ إِلَى جَنْبِ جُهَيْنَةَ، فَأَغَرْنَا عَلَيْهِمْ، وَكَانُوا كَثِيرًا فَلَجَأْنَا إِلَى جُهَيْنَةَ، فَمَنَعُونَا، وَقَالُوا: لِمَ تُقَاتِلُونَ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ؟، فَقُلْنَا إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنَ الْبَلَدِ الْحَرَامِ، فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: مَا تَرَوْنَ؟، فَقَالَ بَعْضُنَا: نَأْتِي نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخْبِرُهُ، وَقَالَ قَوْمٌ: لَا، بَلْ نُقِيمُ هَاهُنَا، وَقُلْتُ أَنَا فِي أُنَاسٍ مَعِي: لَا، بَلْ نَأْتِي عِيرَ قُرَيْشٍ فَنَقْتَطِعُهَا، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ، وَكَانَ الْفَيْءُ إِذْ ذَاكَ مَنْ أَخَذَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ، وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ، فَقَامَ غَضْبَانًا مُحْمَرَّ الْوَجْهِ , فَقَالَ:" أَذَهَبْتُمْ مِنْ عِنْدِي جَمِيعًا، وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ؟ إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْفُرْقَةُ، لَأَبْعَثَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلًا لَيْسَ بِخَيْرِكُمْ أَصْبَرُكُمْ عَلَى الْجُوعِ وَالْعَطَشِ"، فَبَعَثَ عَلَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَحْشٍ الْأَسَدِيَّ فَكَانَ أَوَّلَ أَمِيرٍ أُمِّرَ فِي الْإِسْلَامِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ جہینہ کے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے درمیان آکر قیام پذیر ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی وثیقہ لکھ دیجئے تاکہ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ پر ہمیں اطمینان ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وثیقہ لکھوا دیا، بعد میں وہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رجب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا، ہماری تعداد سو بھی نہیں ہوگی، اور ہمیں حکم دیا کہ قبیلہ جہینہ کے پہلو میں بنو کنانہ کا ایک قبیلہ آباد ہے، اس پر حملہ کریں، ہم نے ان پر شب خون مارا لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، چنانچہ ہم نے قبیلہ جہینہ میں پناہ لی لیکن انہوں نے ہمیں پناہ دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ اشہر حرم میں قتال کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم ان لوگوں سے قتال کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے شہر حرام میں نکال کر ان کی حرمت کو ختم کیا تھا۔ پھر ہم آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر انہیں ساری صورت حال سے مطلع کرتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم یہیں ٹھہریں گے، چند لوگوں کے ساتھ میری رائے یہ تھی کہ ہم لوگ قریش کے قافلے کی طرف چلتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں، چنانچہ لوگ قافلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت مال غنیمت کا اصول یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگ گئی، وہ اس کی ہو گئی، ہم میں سے کچھ لوگوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، اور فرمایا کہ ”تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے ہو کر گئے تھے، اور اب جدا جدا ہو کر آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو اسی تفرقہ نے ہی ہلاک کیا تھا، میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہوگا۔“ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا، جو اسلام میں سب سے پہلے امیر تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المجالد ضعيف وزياد بن علاقة لم يسمع من سعد .
سیدنا نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2900، هذالحديث من مسند نافع بن عتبة، ليس من مسند سعد .
سیدنا نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2900، هذالحديث من مسند نافع بن عتبة .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: سمعت ابي يحدث , عن محمد بن عكرمة ، عن محمد بن عبد الرحمن ابن لبيبة ، عن سعيد بن المسيب ، عن سعد بن ابي وقاص , ان اصحاب المزارع في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يكرون مزارعهم بما يكون على السواقي من الزروع، وما سعد بالماء مما حول النبت، فجاءوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاختصموا في بعض ذلك، فنهاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكروا بذلك، وقال:" اكروا بالذهب والفضة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , أَنَّ أَصْحَابَ الْمَزَارِعِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يُكْرُونَ مَزَارِعَهُمْ بِمَا يَكُونُ عَلَى السَّوَاقِي مِنَ الزُّرُوعِ، وَمَا سَعِدَ بِالْمَاءِ مِمَّا حَوْلَ النَّبْتِ، فَجَاءوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَصَمُوا فِي بَعْضِ ذَلِكَ، فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكْرُوا بِذَلِكَ، وَقَالَ:" أَكْرُوا بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کھیتوں کے مالکان اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور بعض لوگوں کا اس میں جھگڑا بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین لینے دینے سے منع فرما دیا، اور فرمایا: ”سونے چاندی کے بدلے زمین کو کرایہ پر لیا دیا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة ضعيف ومحمد بن عكرمة مجهول .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں تھوک دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے چھپا دے تاکہ وہ کسی مسلمان کے جسم یا کپڑوں کو لگ کر اس کی اذیت کا سبب نہ بن جائے۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے اس کو ناپسندیدہ سمجھا اور فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے یہی سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه , يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم:" اعظم المسلمين في المسلمين جرما، من سال عن امر لم يحرم، فحرم على الناس من اجل مسالته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ , يبَلَغَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْظَمُ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہ تھی لیکن اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان، لكنه توبع .
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عبد الملك ، سمعه من جابر بن سمرة , شكا اهل الكوفة سعدا إلى عمر، فقالوا: إنه لا يحسن يصلي، قال:" آلاعاريب؟ والله ما آلو بهم عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، في الظهر والعصر اركد في الاوليين، واحذف في الاخريين"، فسمعت عمر، يقول: كذلك الظن بك يا ابا إسحاق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، سَمِعَهُ مِنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: إِنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، قَالَ:" آلْأَعَارِيبُ؟ وَاللَّهِ مَا آلُو بِهِمْ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ"، فَسَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: كَذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757 بدون ذكر طلحة .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پہاڑ یا چٹان کے گڑھے کی برائی اور نقصان یہ ہے کہ قبیلہ بجیلہ کا آدمی بھی بلندی سے پستی میں جا پڑتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بكر بن قرواش مجهول، والانقطاع بين العلاء وبين أبي الطفيل .
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن عبد الله بن يزيد ، عن ابي عياش ، قال: سئل سعد عن بيع سلت بشعير، او شيء من هذا، فقال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن تمر برطب، فقال:" تنقص الرطبة إذا يبست؟"، قالوا: نعم، قال:" فلا إذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ ، قَالَ: سُئِلَ سَعْدٌ عَنْ بَيْعِ سُلْتٍ بِشَعِيرٍ، أَوْ شَيْءٍ مِنْ هَذَا، فَقَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَمْرٍ بِرُطَبٍ، فَقَالَ:" تَنْقُصُ الرَّطْبَةُ إِذَا يَبِسَتْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَلَا إِذَنْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: کیا بغیر چھلکے کے جو کو عام جو کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کا سوال پوچھا تھا، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، قال: سمعت سعدا ، يقول: سمعت اذناي، ووعى قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم:" انه من ادعى إلى غير ابيه وهو يعلم انه غير ابيه , فالجنة عليه حرام"، قال: فلقيت ابا بكرة، فحدثته، فقال: وانا سمعه اذناي، ووعى قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدًا ، يَقُولُ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَوَعَى قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ , فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ"، قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: وَأَنَا سَمِعَهُ أُذُنَايَ، وَوَعَى قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا هشام الدستوائي ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن الحضرمي بن لاحق ، عن سعيد بن المسيب ، قال: سالت سعد بن ابي وقاص عن الطيرة، فانتهرني، وقال: من حدثك؟ فكرهت ان احدثه من حدثني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى، ولا طيرة، ولا هام، إن تكن الطيرة في شيء ففي الفرس، والمراة، والدار، وإذا سمعتم بالطاعون بارض، فلا تهبطوا، وإذا كان بارض وانتم بها فلا تفروا منه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنِ الطِّيَرَةِ، فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ فَكَرِهْتُ أَنْ أُحَدِّثَهُ مَنْ حَدَّثَنِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَ، إِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ، فَلَا تَهْبِطُوا، وَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ".
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا: تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان صاحب کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جنہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی اور مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکلنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔ اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل يعني ابن إبراهيم ، انبانا هشام الدستوائي ، عن عاصم بن بهدلة ، عن مصعب بن سعد ، قال: قال سعد : يا رسول الله، اي الناس اشد بلاء؟ قال:" الانبياء، ثم الامثل، فالامثل، حتى يبتلى العبد على قدر دينه ذاك، فإن كان صلب الدين ابتلي على قدر ذاك، وقال مرة اشتد بلاؤه وإن كان في دينه رقة ابتلي على قدر ذاك، وقال مرة: على حسب دينه، قال: فما تبرح البلايا عن العبد، حتى يمشي في الارض يعني: وما إن عليه من خطيئة"، قال ابي، وقال مرة، عن سعد، قال: قلت: يا رسول الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، حَتَّى يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى قَدْرِ دِينِهِ ذَاكَ، فَإِنْ كَانَ صُلْبَ الدِّينِ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ، وَقَالَ مَرَّةً اشْتَدَّ بَلاَؤُه وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، قَالَ: فَمَا تَبْرَحُ الْبَلَايَا عَنِ الْعَبْدِ، حَتَّى يَمْشِيَ فِي الْأَرْضِ يَعْنِي: وَمَا إِنْ عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ"، قَالَ أَبِي، وَقَالَ مَرَّةً، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا ابو إسحاق الشيباني ، عن محمد بن عبيد الله الثقفي ، عن سعد بن ابي وقاص ، قال: لما كان يوم بدر، قتل اخي عمير، وقتلت سعيد بن العاص، واخذت سيفه، وكان يسمى ذا الكتيفة، فاتيت به نبي الله صلى الله عليه وسلم , قال:" اذهب، فاطرحه في القبض"، قال: فرجعت وبي ما لا يعلمه إلا الله من قتل اخي، واخذ سلبي، قال: فما جاوزت إلا يسيرا، حتى نزلت سورة الانفال، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فخذ سيفك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قُتِلَ أَخِي عُمَيْرٌ، وَقَتَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ، وَأَخَذْتُ سَيْفَهُ، وَكَانَ يُسَمَّى ذَا الْكَتِيفَةِ، فَأَتَيْتُ بِهِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" اذْهَبْ، فَاطْرَحْهُ فِي الْقَبَضِ"، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَبِي مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَتْلِ أَخِي، وَأَخْذِ سَلَبِي، قَالَ: فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا يَسِيرًا، حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَخُذْ سَيْفَكَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میرے بھائی عمیر شہید ہو گئے اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار لے لی، جس کا نام «ذَا الْكَتِيفَةِ» تھا، میں وہ تلوار لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر یہ تلوار مال غنیمت میں ڈال دو۔“ مجھے اپنے بھائی کی شہادت کا جو غم تھا اور مال غنیمت کے حصول کا جو خیال تھا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورہ انفال نازل ہو گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر اپنی تلوار لے لو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا الإسناد ضعيف لأن محمد بن عبيد الله لم يدرك سعداً .
(حديث مرفوع) حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: شكا اهل الكوفة سعدا إلى عمر، فقالوا: لا يحسن يصلي، فذكر ذلك عمر له، فقال:" اما صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقد كنت اصلي بهم، اركد في الاوليين، واحذف في الاخريين"، فقال: ذاك الظن بك ابا إسحاق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لَهُ، فَقَالَ:" أَمَّا صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ، أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ"، فَقَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَبَا إِسْحَاقَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کسی ناگہانی دھوکے یا برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن موسى الجهني ، حدثني مصعب بن سعد ، عن ابيه , ان اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: علمني كلاما اقوله، قال:" قل: لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله رب العالمين، ولا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم، خمسا"، قال: هؤلاء لربي، فما لي؟، قال:" قل اللهم اغفر لي، وارحمني، وارزقني، واهدني، وعافني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَلِّمْنِي كَلَامًا أَقُولُهُ، قَالَ:" قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ، خَمْسًا"، قَالَ: هَؤُلَاءِ لِرَبِّي، فَمَا لِي؟، قَالَ:" قُلْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ»”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب حکمت والا ہے۔“ یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو۔“ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے؟ فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَارْزُقْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي»”اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے عافیت نصیب فرما۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن موسى يعني الجهني ، حدثني مصعب بن سعد ، حدثني ابي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" ايعجز احدكم ان يكسب كل يوم الف حسنة"، فقال رجل من جلسائه: كيف يكسب احدنا الف حسنة؟، قال:" يسبح مائة تسبيحة، تكتب له الف حسنة، او يحط عنه الف خطيئة"، قال ابي: وقال ابن نمير ايضا:" او يحط" ويعلى ايضا،" او يحط".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُوسَى يَعْنِي الْجُهَنِيَّ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ؟، قَالَ:" يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ، تُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ، أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ"، قَالَ أَبِي: وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَيْضًا:" أَوْ يُحَطُّ" وَيَعْلَى أَيْضًا،" أَوْ يُحَطُّ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا، اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مصعب بن ثابت لين الحديث لكنه توبع.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص مؤذن کی اذان سنتے وقت یہ کلمات کہے: «وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِينَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا»”میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کو رب مان کر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول مان کر اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی اور مطمئن ہوں“، تو اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا إسماعيل ، حدثنا قيس ، قال: سمعت سعد بن مالك ، يقول:" إني لاول العرب رمى بسهم في سبيل الله، ولقد اتينا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما لنا طعام ناكله إلا ورق الحبلة، وهذا السمر، حتى إن احدنا ليضع كما تضع الشاة ما له خلط، ثم اصبحت بنو اسد يعزروني على الدين، لقد خبت إذا، وضل عملي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَقَدْ أَتَيْنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ، وَهَذَا السَّمُرَ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا لَهُ خِلْطٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الدِّينِ، لَقَدْ خِبْتُ إِذَاً، وَضَلَّ عَمَلِي".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثني سماك بن حرب ، عن مصعب بن سعد ، قال:" انزلت في ابي اربع آيات، قال: قال ابي : اصبت سيفا، قلت: يا رسول الله، نفلنيه؟ قال:" ضعه"، قلت: يا رسول الله، نفلنيه، اجعل كمن لا غناء له؟، قال:" ضعه من حيث اخذته"، فنزلت: 0 يسالونك الانفال 0، قال: وهي في قراءة ابن مسعود، كذلك , قل الانفال سورة الانفال آية 1، وقالت امي: اليس الله يامرك بصلة الرحم، وبر الوالدين؟، والله لا آكل طعاما ولا اشرب شرابا، حتى تكفر بمحمد، فكانت لا تاكل حتى يشجروا فمها بعصا، فيصبوا فيه الشراب، قال شعبة: واراه قال: والطعام، فانزلت ووصينا الإنسان بوالديه حملته امه وهنا على وهن وقرا حتى بلغ بما كنتم تعملون سورة لقمان آية 14 - 15، ودخل علي النبي صلى الله عليه وسلم , وانا مريض، قلت: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟، فنهاني، قلت: النصف؟، قال:" لا"، قلت: الثلث؟، فسكت، فاخذ الناس به، وصنع رجل من الانصار طعاما , فاكلوا، وشربوا، وانتشوا من الخمر، وذاك قبل ان تحرم، فاجتمعنا عنده , فتفاخروا، وقالت الانصار: الانصار خير، وقالت المهاجرون: المهاجرون خير، فاهوى له رجل بلحيي جزور، ففزر انفه، فكان انف سعد مفزورا، فنزلت يايها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر إلى قوله فهل انتم منتهون سورة المائدة آية 90 - 91.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" أُنْزِلَتْ فِي أَبِي أَرْبَعُ آيَاتٍ، قَالَ: قَالَ أَبِي : أَصَبْتُ سَيْفًا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ؟ قَالَ:" ضَعْهُ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ، أُجْعَلْ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ؟، قَالَ:" ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ"، فَنَزَلَتْ: 0 يَسْأَلُونَكَ الْأَنْفَالَ 0، قَالَ: وَهِيَ فِي قِرَاءَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ، كَذَلِكَ , قُلِ الأَنْفَالُ سورة الأنفال آية 1، وَقَالَتْ أُمِّي: أَلَيْسَ اللَّهُ يَأْمُرُكَ بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَبِرِّ الْوَالِدَيْنِ؟، وَاللَّهِ لَا آكُلُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَكَانَتْ لَا تَأْكُلُ حَتَّى يَشْجُرُوا فَمَهَا بِعَصًا، فَيَصُبُّوا فِيهِ الشَّرَابَ، قَالَ شُعْبَةُ: وَأُرَاهُ قَالَ: وَالطَّعَامَ، فَأُنْزِلَتْ وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ سورة لقمان آية 14 - 15، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنَا مَرِيضٌ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟، فَنَهَانِي، قُلْتُ: النِّصْفُ؟، قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: الثُّلُثُ؟، فَسَكَتَ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِهِ، وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ طَعَامًا , فَأَكَلُوا، وَشَرِبُوا، وَانْتَشَوْا مِنَ الْخَمْرِ، وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ، فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَهُ , فَتَفَاخَرُوا، وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: الْأَنْصَارُ خَيْرٌ، وَقَالَتْ الْمُهَاجِرُونَ: الْمُهَاجِرُونَ خَيْرٌ، فَأَهْوَى لَهُ رَجُلٌ بِلَحْيَيْ جَزُورٍ، فَفَزَرَ أَنْفَهُ، فَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا، فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ إِلَى قَوْلِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ سورة المائدة آية 90 - 91.
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ میں نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔“ اس پر سورہ انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا: کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ واللہ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کردو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ . . . . . بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ [لقمان: 14-15] »”ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے . . . . . لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو . . . . .۔“ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعوین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مد ہوش ہو گئے، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کر دیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کر دی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ تھے، اس پر سورہ مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہو گئی۔
غنیم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس وقت حج تمتع کیا تھا جب انہوں نے یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کے گھروں میں اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے، انہوں نے میرے ہاتھوں پر ایک ضرب لگائی اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا هاشم ، عن عائشة بنت سعد ، عن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من تصبح بسبع تمرات من عجوة لم يضره ذلك اليوم سم، ولا سحر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَصَبَّحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةٍ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ سُمٌّ، وَلَا سِحْرٌ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھا لے، اسے اس دن کوئی زہر یا جادو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، عن عثمان يعني ابن حكيم ، اخبرني عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني احرم ما بين لابتي المدينة، ان يقطع عضاهها، او يقتل صيدها، وقال: المدينة خير لهم، لو كانوا يعلمون، لا يخرج منها احد رغبة عنها، إلا ابدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت احد على لاوائها وجهدها، إلا كنت له شهيدا , او شفيعا يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ حَكِيمٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ، أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا، وَقَالَ: الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ، لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، لَا يَخْرُجُ مِنْهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا , أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے، اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے۔“ اور فرمایا کہ ”لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے، کاش! کہ انہیں اس پر یقین بھی ہو، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیں گے، اور جو شخص بھی یہاں کی تکالیف اور محنت و مشقت پر ثابت قدم رہتا ہے، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارش کروں گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عثمان ، قال: اخبرني عامر بن سعد ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل ذات يوم من العالية، حتى إذا مر بمسجد بني معاوية دخل، فركع فيه ركعتين، وصلينا معه، ودعا ربه طويلا، ثم انصرف إلينا، فقال:" سالت ربي ثلاثا، فاعطاني اثنتين، ومنعني واحدة، سالت ربي: ان لا يهلك امتي بسنة فاعطانيها، وسالته ان لا يهلك امتي بالغرق فاعطانيها، وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فمنعنيها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنَ الْعَالِيَةِ، حَتَّى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ، فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا، فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ، وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي: أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ”عالیہ“ سے آرہے تھے، راستے میں بنو معاویہ کی مسجد پر گذر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعا فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا: ”میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، جن میں سے دو اس نے قبول کر لیں اور ایک قبول نہیں کی۔ ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کر لی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی، اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، لیکن اللہ نے یہ دعا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن العيزار بن حريث العبدي ، عن عمر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عجبت للمؤمن إن اصابه خير حمد الله وشكر، وإن اصابته مصيبة احتسب وصبر المؤمن، يؤجر في كل شيء، حتى في اللقمة يرفعها إلى فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَجِبْتُ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ اللَّهَ وَشَكَرَ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ احْتَسَبَ وَصَبَرَ الْمُؤْمِنُ، يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ، حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِيهِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے، انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں اس سے منع کر دیا گیا تھا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا خزیمہ بن ثابت اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ طاعون ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں تمہارے سامنے دجال کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، أبن إسحاق مدلس وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا ابن ابي ذئب ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد بن مالك ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه اتاه رهط فسالوه، فاعطاهم إلا رجلا منهم، قال سعد: فقلت: يا رسول الله، اعطيتهم وتركت فلانا، فوالله إني لاراه مؤمنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" او مسلما"، فردد عليه سعد ذلك ثلاثا مؤمنا، ورد عليه النبي صلى الله عليه وسلم:" او مسلما"، فقال النبي صلى الله عليه وسلم في الثالثة:" والله إني لاعطي الرجل العطاء لغيره، احب إلي منه، خوفا ان يكبه الله على وجهه في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ أَتَاهُ رَهْطٌ فَسَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ إِلَّا رَجُلًا مِنْهُمْ، قَالَ سَعْدٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَ فُلَانًا، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمًا"، فَرَدَّد عَلَيْهِ سَعْدٌ ذَلِكَ ثَلَاثًا مُؤْمِنًا، وَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْ مُسْلِمًا"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّالِثَةِ:" وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ لَغَيْرُهُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَوْفًا أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان نہیں؟“ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ نہیں دیتا اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔“
حدثني عبد الله، حدثني ابي، قال: قال ابو نعيم لقيت سفيان بمكة، فاول من سالني عنه، قال: كيف شجاع؟ يعني ابا بدر.حَدَثَني عَبْدُ الله، حَدَثَني أبيَّ، قَالَ: قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ لَقِيتُ سُفْيَانَ بِمَكَّةَ، فَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَنِي عَنْهُ، قَالَ: كَيْفَ شُجَاعٌ؟ يَعْنِي أَبَا بَدْرٍ.
ابونعیم کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں میری ملاقات سفیان سے ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شجاع یعنی ابوبدر کیسے ہیں؟
حكم دارالسلام: هذا ليس بحديث، بل هو أثر عن أبى نعيم أن سفيان وهو الثوري - سأله عن أبى بدر شجاع بن الوليد، وحق هذا الأثر أن يكون بإثر الحديث السالف: (1572)، إذلا معنى لإيراده هنا .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا إبراهيم بن سعد ، ح هاشم بن القاسم , حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن صالح بن كيسان ، قال هاشم في حديثه , قال: حدثني صالح بن كيسان، وقال يزيد، عن صالح، عن الزهري ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن ، عن محمد بن سعد ، عن ابيه ، قال: دخل عمر بن الخطاب على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة من قريش، يسالنه، ويستكثرن رافعات اصواتهن، فلما سمعن صوت عمر انقمعن وسكتن، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا عدوات انفسهن، تهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن إنك افظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واغلظ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمر، ما لقيك الشيطان سالكا فجا، إلا سلك فجا غير فجك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ح َهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، قَالَ هَاشِمٌ فِي حَدِيثِهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَقَالَ يَزِيدُ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ، يَسْأَلْنَهُ، وَيَسْتَكْثِرْنَ رَافِعَاتٍ أَصْوَاتَهُنَّ، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَ عُمَرَ انْقَمَعْنَ وَسَكَتْنَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ، تَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ إِنَّكَ أَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَغْلَظُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے اور خاموش ہوگئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم لوگ اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین دینے سے منع فرما دیا، اور سونے چاندی کی بدلے زمین کو کرایہ پر دینے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة ضعيف ومحمد بن عكرمة مجهول .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن مصعب بن سعد ، عن سعد بن ابي وقاص ، قال: خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب في غزوة تبوك، فقال: يا رسول الله، تخلفني في النساء والصبيان، قال:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، غير انه لا نبي بعدي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، قَالَ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا شعبة ، قال زياد بن مخراق اخبرني , قال: سمعت قيس بن عباية يحدث , عن مولى لسعد ، ح وحدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن زياد بن مخراق ، قال: سمعت قيس بن عباية القيسي يحدث , عن مولى لسعد بن ابي وقاص ، عن ابن لسعد , انه كان يصلي، فكان يقول في دعائه: اللهم إني اسالك الجنة، واسالك من نعيمها وبهجتها، ومن كذا، ومن كذا، ومن كذا، ومن كذا، واعوذ بك من النار، وسلاسلها واغلالها، ومن كذا، ومن كذا، قال: فسكت عنه سعد، فلما صلى، قال له سعد : تعوذت من شر عظيم، وسالت نعيما عظيما , او قال: طويلا، شعبة شك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه سيكون قوم يعتدون في الدعاء، وقرا: ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين سورة الاعراف آية 55"، قال شعبة: لا ادري قوله ادعوا ربكم تضرعا وخفية سورة الاعراف آية 55، هذا من قول سعد، او قول النبي صلى الله عليه وسلم، وقال له سعد: قل اللهم اسالك الجنة، وما قرب إليها من قول او عمل، واعوذ بك من النار، وما قرب إليها من قول او عمل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَال زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ أَخْبَرَنِي , قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ ، حَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ الْقَيْسِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ مَوْلًى لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنِ ابْنٍ لِسَعْدٍ , أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي، فَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ نَعِيمِهَا وَبَهْجَتِهَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا، وَمِنْ كَذَا، وَمِنْ كَذَا، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ سَعْدٌ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ لَهُ سَعْدٌ : تَعَوَّذْتَ مِنْ شَرٍّ عَظِيمٍ، وَسَأَلْتَ نَعِيمًا عَظِيمًا , أَوْ قَالَ: طَوِيلًا، شُعْبَةُ شَكَّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ، وَقَرَأَ: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ سورة الأعراف آية 55"، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أَدْرِي قَوْلُهُ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً سورة الأعراف آية 55، هَذَا مِنْ قَوْلِ سَعْدٍ، أَوْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُ سَعْد: قُلْ اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ.
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں اور فلاں فلاں چیز سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائے گی، اور یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ [الأعراف: 55] »”تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ «اَللّٰهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ»”اے اللہ! آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي سعد .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن مصعب ، عن سعد بن ابي وقاص , انه كان يامر بهؤلاء الخمس، ويحدثهن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم إني اعوذ بك من البخل، واعوذ بك من الجبن، واعوذ بك ان ارد إلى ارذل العمر، واعوذ بك من فتنة الدنيا، واعوذ بك من عذاب القبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُصْعَبٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهَؤُلَاءِ الْخَمْسِ، ويُحَدِثْهِن عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
مصعب کہتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»”اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: حلفت باللات والعزى، فقال اصحابي: قد قلت هجرا، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت إن العهد كان قريبا، وإني حلفت باللات والعزى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قل: لا إله إلا الله وحده ثلاثا، ثم انفث عن يسارك ثلاثا، وتعوذ ولا تعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فقال أصحابي: قد قُلْتَ هُجْرًا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ قَرِيبًا، وَإِنِّي حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ انْفُثْ عَنْ يَسَارِكَ ثَلَاثًا، وَتَعَوَّذْ وَلَا تَعُدْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھا لی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مرتبہ یہ کہہ لو «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ» اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو، اور «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ» پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الرحمن مؤمل بن إسماعيل ، وعفان المعنى , قالا: حدثنا حماد ، حدثنا عاصم ، عن مصعب بن سعد ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بقصعة من ثريد، فاكل، ففضل منه فضلة، فقال:" يدخل من هذا الفج رجل من اهل الجنة، ياكل هذه الفضلة"، قال سعد: وقد كنت تركت اخي عمير بن ابي وقاص يتهيا، لان ياتي النبي صلى الله عليه وسلم , فطمعت ان يكون هو، فجاء عبد الله بن سلام فاكلها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، وَعَفَّانُ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ، فَأَكَلَ، فَفَضَلَ مِنْهُ فَضْلَةٌ، فَقَالَ:" يَدْخُلُ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، يَأْكُلُ هَذِهِ الْفَضْلَةَ"، قَالَ سَعْدٌ: وَقَدْ كُنْتُ تَرَكْتُ أَخِي عُمَيْرَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَتَهَيَّأُ، لِأَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَطَمِعْتُ أَنْ يَكُونَ هُوَ، فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَأَكَلَهَا.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا اسامة يعني ابن زيد ، حدثنا ابو عبد الله القراظ ، انه سمع سعد بن مالك ، وابا هريرة ، يقولان: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم بارك لاهل المدينة في مدينتهم، وبارك لهم في صاعهم، وبارك لهم في مدهم، اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك، وإني عبدك ورسولك، وإن إبراهيم سالك لاهل مكة، وإني اسالك لاهل المدينة، كما سالك إبراهيم 56 لاهل مكة، ومثله معه إن المدينة مشبكة بالملائكة، على كل نقب منها ملكان يحرسانها، لا يدخلها الطاعون، ولا الدجال، من ارادها بسوء اذابه الله، كما يذوب الملح في الماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظُ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولَانِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مَدِينَتِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ سَأَلَكَ لِأَهْلِ مَكَّةَ، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ، كَمَا سَأَلَكَ إِبْرَاهِيمُ 56 لِأَهْلِ مَكَّةَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ إِنَّ الْمَدِينَةَ مُشَبَّكَةٌ بِالْمَلَائِكَةِ، عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا، لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، وَلَا الدَّجَّالُ، مَنْ أَرَادَهَا بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ، كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مَدِينَتِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ اَللّٰهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ وَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ سَأَلَكَ لِأَهْلِ مَكَّةَ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ»”اے اللہ! اہل مدینہ کے لئے ان کا مدینہ مبارک فرما، اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما، اے اللہ! ابراہیم آپ کے بندے اور خلیل تھے اور میں آپ کا بندہ اور رسول ہوں، ابراہیم نے آپ سے اہل مکہ کے لئے دعا مانگی تھی، میں آپ سے اہل مدینہ کے لئے دعا مانگ رہا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ ”مدینہ منورہ ملائکہ کے جال میں جکڑا ہوا ہے، اس کے ہر سوراخ پر دو فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں، یہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے، جو اس کے ساتھ کوئی ناپاک ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1363، 1387 وهذا إسناد حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن محمد بن سعد ، عن ابيه سعد ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يضرب بإحدى يديه على الاخرى، وهو يقول:" الشهر هكذا وهكذا"، ثم نقص اصبعه في الثالثة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْرِبُ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى، وَهُوَ يَقُولُ:" الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا"، ثُمَّ نَقَصَ أُصْبُعَهُ فِي الثَّالِثَةِ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ”مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد انتیس (29) کا مہینہ ہونا ہے)۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ بعض اوقات اتنا، اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد انتیس (29) کا مہینہ ہوتا ہے)۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی، جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره. وهذا إسناد ضعيف لأن زيد بن أسلم لم يسمع من سعد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 3705، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف حمزة بن عبدالله وأبوه لا يعرفان .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اسی طرح کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم طواف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، ہم میں سے بعض نے طواف میں سات چکر لگائے، بعض نے آٹھ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مجاهد لم يسمع من سعد. والحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، انبانا عبد الله بن وهب ، اخبرني ابو صخر ، قال ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد: وسمعته انا من هارون , ان ابا حازم حدثه , عن ابن لسعد بن ابي وقاص ، قال: سمعت ابي ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو , يقول:" إن الإيمان بدا غريبا، وسيعود كما بدا، فطوبى يومئذ للغرباء إذا فسد الناس، والذي نفس ابي القاسم بيده، ليارزن الإيمان بين هذين المسجدين، كما تارز الحية في جحرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مَنْ هَارُونَ , أَنَّ أَبَا حَازِمٍ حَدَّثَهُ , عَنِ ابْنٍ لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ , يَقُولُ:" إِنَّ الْإِيمَانَ بَدَأَ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ، فَطُوبَى يَوْمَئِذٍ لِلْغُرَبَاءِ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ، وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ، لَيَأْرِزَنَّ الْإِيمَانُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْمَسْجِدَيْنِ، كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ فِي جُحْرِهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ایمان کا آغاز بھی اس حال میں ہوا تھا کہ وہ اجنبی تھا، اور عنقریب یہ اسی حال پر لوٹ جائے گا جیسے اس کا آغاز ہوا تھا، اس موقع پر - جب لوگوں میں فساد پھیل جائے گا - غرباء کے لئے خوشخبری ہوگی، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے، ایمان ان دو مسجدوں کے درمیان اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔“
سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”سوائے مسجد حرام کے دوسری مسجدوں کی نسبت میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، انبانا عثمان بن حكيم ، حدثني عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني احرم ما بين لابتي المدينة، كما حرم إبراهيم 56 حرمه، لا يقطع عضاهها، ولا يقتل صيدها، ولا يخرج منها احد رغبة عنها، إلا ابدلها الله خيرا منه، والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، ولا يريدهم احد بسوء، إلا اذابه الله ذوب الرصاص في النار، او ذوب الملح في الماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، أَنْبَأَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ، كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ 56 حَرَمَهُ، لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا، وَلَا يُقْتَلُ صَيْدُهَا، وَلَا يَخْرُجُ مِنْهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَهَا اللَّهُ خَيْرًا مِنْهُ، وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، وَلَا يُرِيدُهُمْ أَحَدٌ بِسُوءٍ، إِلَّا أَذَابَهُ اللَّهُ ذَوْبَ الرَّصَاصِ فِي النَّارِ، أَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیتے ہیں، اور لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے، اور جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ برا ارادہ کرے گا، اسے اللہ اسی طرح پگھلا دے گا جیسے تانبا آگ میں یا نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا عاصم بن بهدلة ، حدثني مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الناس اشد بلاء؟ قال: فقال:" الانبياء، ثم الامثل، فالامثل، يبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان دينه صلبا اشتد بلاؤه، وإن كان في دينه رقة ابتلي على حسب دينه، فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الارض ما عليه خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: فَقَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول له , وخلفه في بعض مغازيه، فقال علي: اتخلفني مع النساء والصبيان؟ قال:" يا علي اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعته يقول يوم خيبر:" لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله"، فتطاولنا لها، فقال:" ادعوا لي عليا"، فاتي به ارمد، فبصق في عينه، ودفع الراية إليه، ففتح الله عليه. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ولما نزلت هذه الآية ندع ابناءنا وابناءكم سورة آل عمران آية 61، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، وفاطمة، وحسنا، وحسينا، فقال:" اللهم هؤلاء اهلي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ لَهُ , وَخَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَتُخَلِّفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ قَالَ:" يَا عَلِيُّ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"، فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ:" ادْعُوا لِي عَلِيًّا"، فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے اپنا نائب بنا کر چھوڑ دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ نہیں ہے۔“ نیز میں نے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوگا۔“ ہم نے اس سعات کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، لیکن لسان نبوت سے ارشاد ہوا: ”علی کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔“ جب انہیں بلا کر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا، اور جھنڈا ان کے حوالے کر دیا، اللہ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی: «﴿نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ﴾ [آل عمران: 61] »”ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بلایا اور فرمایا: ”اے اللہ! یہ میرے اہل خانہ ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث بن سعد ، عن عياش بن عباس ، عن بكير بن عبد الله ، عن بسر بن سعيد ، ان سعد بن ابي وقاص ، قال عند فتنة عثمان بن عفان: اشهد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إنها ستكون فتنة القاعد فيها خير من القائم، والقائم خير من الماشي، والماشي خير من الساعي"، قال: افرايت إن دخل علي بيتي، فبسط يده إلي ليقتلني؟ قال:" كن كابن آدم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ عِنْدَ فِتْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي، فَبَسَطَ يَدَهُ إِلَيَّ لِيَقْتُلَنِي؟ قَالَ:" كُنْ كَابْنِ آدَمَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایام امتحان میں فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔“ راوی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے ارادے سے اپنا ہاتھ بڑھائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ”ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ”یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں جو قریش میں ہاتھ کے سب سے سخی اور سب سے زیادہ جوڑ پیدا کرنے والے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، ويعلى , قالا: حدثنا موسى يعني الجهني ، عن مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم اعرابي، فقال: يا نبي الله، علمني كلاما اقوله، قال:" قل: لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، سبحان الله رب العالمين، لا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم"، قال: هؤلاء لربي عز وجل، فما لي؟، قال:" قل: اللهم اغفر لي، وارحمني، واهدني، وارزقني"، قال ابن نمير: قال موسى: اما" عافني"، فانا اتوهم، وما ادري.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَيَعْلَى , قَالَا: حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي الْجُهَنِيَّ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، عَلِّمْنِي كَلَامًا أَقُولُهُ، قَالَ:" قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ"، قَالَ: هَؤُلَاءِ لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا لِي؟، قَالَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي"، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: قَالَ مُوسَى: أَمَّا" عَافِنِي"، فَأَنَا أَتَوَهَّمُ، وَمَا أَدْرِي.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ»”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔“ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے؟ فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي»”اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما، مجھے رزق عطاء فرما۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا موسى ، عن مصعب بن سعد ، حدثني ابي ، قال: كنا جلوسا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" ايعجز احدكم ان يكسب كل يوم الف حسنة؟"، قال: فساله سائل من جلسائه , يا نبي الله، كيف يكسب احدنا الف حسنة؟ قال:" يسبح مائة تسبيحة، فيكتب له الف حسنة، او يحط عنه الف خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ؟"، قَالَ: فَسَأَلَهُ سَائِلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ , يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ؟ قَالَ:" يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ، فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ، أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا موسى ، عن مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" ايعجز احدكم ان يكسب كل يوم الف حسنة؟"، فساله سائل من جلسائه , كيف يكسب احدنا، يا رسول الله، كل يوم الف حسنة؟ قال:" يسبح مائة تسبيحة، فيكتب له الف حسنة، او يحط عنه الف خطيئة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا مُوسَى ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ؟"، فَسَأَلَهُ سَائِلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ , كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ؟ قَالَ:" يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ، فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ، أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، عن مصعب بن سعد ، عن ابيه ، قال: انزلت في اربع آيات يوم بدر، اصبت سيفا، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، نفلنيه؟ فقال:" ضعه"، ثم قام، فقال: يا رسول الله، نفلنيه، فقال:" ضعه"، ثم قام، فقال: يا رسول الله، نفلنيه، اجعل كمن لا غناء له؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ضعه من حيث اخذته"، فنزلت هذه الآية يسالونك عن الانفال قل الانفال لله والرسول سورة الانفال آية 1، قال: وصنع رجل من الانصار طعاما، فدعانا فشربنا الخمر حتى انتشينا، قال: فتفاخرت الانصار وقريش، فقالت: الانصار نحن افضل منكم، وقالت قريش: نحن افضل منكم، فاخذ رجل من الانصار لحيي جزور، فضرب به انف سعد ففزره، قال: فكان انف سعد مفزورا، قال: فنزلت هذه الآية يايها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون سورة المائدة آية 90، قال: وقالت ام سعد اليس الله قد امرهم بالبر؟ فوالله لا اطعم طعاما، ولا اشرب شرابا، حتى اموت، او تكفر بمحمد، قال: فكانوا إذا ارادوا ان يطعموها، شجروا فاها بعصا، ثم اوجروها، قال: فنزلت هذه الآية ووصينا الإنسان بوالديه حسنا سورة العنكبوت آية 8، قال: ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على سعد وهو مريض يعوده، فقال: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: فبثلثيه؟ فقال:" لا"، قال: فبثلثه، قال: فسكت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ يَوْمَ بَدْرٍ، أَصَبْتُ سَيْفًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ؟ فَقَالَ:" ضَعْهُ"، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ، فَقَالَ:" ضَعْهُ"، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ، أُجْعَلْ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ"، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ سورة الأنفال آية 1، قَالَ: وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ طَعَامًا، فَدَعَانَا فَشَرِبْنَا الْخَمْرَ حَتَّى انْتَشَيْنَا، قَالَ: فَتَفَاخَرَتْ الْأَنْصَارُ وَقُرَيْشٌ، فَقَالَتْ: الْأَنْصَارُ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ، وَقَالَتْ قُرَيْشٌ: نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ لَحْيَيْ جَزُورٍ، فَضَرَبَ بِهِ أَنْفَ سَعْدٍ فَفَزَرَهُ، قَالَ: فَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ سورة المائدة آية 90، قَالَ: وَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَيْسَ اللَّهُ قَدْ أَمَرَهُمْ بِالْبِرِّ؟ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا، وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى أَمُوتَ، أَوْ تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا، شَجَرُوا فَاهَا بِعَصًا، ثُمَّ أَوْجَرُوهَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا سورة العنكبوت آية 8، قَالَ: وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَعْدٍ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَبِثُلُثَيْهِ؟ فَقَالَ:" لَا"، قَالَ: فَبِثُلُثِهِ، قَالَ: فَسَكَتَ.
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔“ اس پر سورہ انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعوین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مدہوش ہو گئے، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کر دیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں، اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کر دی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ تھے، اس پر سورہ مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہو گئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا: کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ واللہ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کر دو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ [العنكبوت: 8] »”ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔“ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔“
یحییٰ بن عبید کہتے ہیں کہ محمد بن سعد ایک دن ہمارے سامنے بیت الخلاء سے نکلے اور وضو کرنے لگے، وضو کے دوران انہوں نے موزوں پر مسح کیا، ہمیں اس پر تعجب ہوا اور ہم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد صاحب نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا إسماعيل ، عن قيس ، قال: سمعت سعد بن مالك ، يقول:" والله إني لاول العرب رمى بسهم في سبيل الله، لقد كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما لنا طعام ناكله، إلا ورق الحبلة وهذا السمر، حتى إن احدنا ليضع كما تضع الشاة، ماله خلط، ثم اصبحت بنو اسد يعزروني على الدين، لقد خبت إذن، وضل عملي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" وَاللَّهِ إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، لَقَدْ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ، إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرَ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، مَالَهُ خِلْطٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الدِّينِ، لَقَدْ خِبْتُ إِذَنْ، وَضَلَّ عَمَلِي".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن عون ، عن محمد بن محمد بن الاسود ، عن عامر بن سعد , عن ابيه ، قال:" لما كان يوم الخندق، ورجل يتترس، جعل يقول بالترس هكذا، فوضعه فوق انفه، ثم يقول هكذا، يسفله بعد، قال: فاهويت إلى كنانتي، فاخرجت منها سهما مدما، فوضعته في كبد القوس، فلما قال: هكذا، يسفل الترس، رميت، فما نسيت وقع القدح على كذا وكذا من الترس، قال: وسقط، فقال برجله، فضحك نبي الله صلى الله عليه وسلم , احسبه قال: حتى بدت نواجذه، قال: قلت: لم؟ قال: لفعل الرجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْخَنْدَقِ، وَرَجُلٌ يَتَتَرَّسُ، جَعَلَ يَقُولُ بِالتُّرْسِ هَكَذَا، فَوَضَعَهُ فَوْقَ أَنْفِهِ، ثُمَّ يَقُولُ هَكَذَا، يُسَفِّلُهُ بَعْدُ، قَالَ: فَأَهْوَيْتُ إِلَى كِنَانَتِي، فَأَخْرَجْتُ مِنْهَا سَهْمًا مُدَمًّا، فَوَضَعْتُهُ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا قَالَ: هَكَذَا، يُسَفِّلُ التُّرْسَ، رَمَيْتُ، فَمَا نَسِيتُ وَقْعَ الْقِدْحِ عَلَى كَذَا وَكَذَا مِنَ التُّرْسِ، قَالَ: وَسَقَطَ، فَقَالَ بِرِجْلِهِ، فَضَحِكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَحْسِبُهُ قَالَ: حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، قَالَ: قُلْتُ: لِمَ؟ قَالَ: لِفِعْلِ الرَّجُلِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو ڈھال سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا، کبھی وہ ڈھال کو اپنی ناک کے اوپر رکھ لیتا، کبھی اس سے نیچے کر لیتا، میں نے یہ دیکھ کر اپنے ترکش کی طرف توجہ کی، اس میں سے ایک خون آلود تیر نکالا اور اسے کمان میں جوڑا، جب اس نے ڈھال کو نیچے کیا تو میں نے اسے تاک کر تیر دے مارا، اس سے پہلے میں تیر کی لکڑی لگانا نہ بھولا تھا، تیر لگتے ہی وہ نیچے گر پڑا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھ گئیں، جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ”اس آدمی کی اس حرکت کی وجہ سے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة محمد بن محمد بن الأسود.
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن عمير ، قال: سمعت مصعب بن سعد يحدث , عن ابيه سعد بن ابي وقاص , انه كان يامر بهذا الدعاء، ويحدث به عن النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم إني اعوذ بك من البخل، واعوذ بك من الجبن، واعوذ بك ان ارد إلى ارذل العمر، واعوذ بك من فتنة الدنيا، واعوذ بك من عذاب القبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهَذَا الدُّعَاءِ، وَيُحَدِّثُ بِهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
مصعب کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»”اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجين بن المثني ، وابو سعيد , قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، قال ابو سعيد , قال: حدثنا ابو إسحاق، عن مصعب بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه , انه حلف باللات والعزى، فقال له اصحابه: قد قلت هجرا، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن العهد كان حديثا، وإني حلفت باللات والعزى، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" قل: لا إله إلا الله وحده ثلاثا، واتفل عن شمالك ثلاثا، وتعوذ بالله من الشيطان، ولا تعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّي ، وَأَبُو سَعِيدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ حَلَفَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: قَدْ قُلْتَ هُجْرًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ حَدِيثًا، وَإِنِّي حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ثَلَاثًا، وَاتْفُلْ عَنْ شِمَالِكَ ثَلَاثًا، وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَلَا تَعُدْ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھا لی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مرتبہ یہ کہہ لو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ» اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو، اور «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ» پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو داود سليمان ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن صالح بن كيسان ، حدثنا ابن شهاب ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن ، عن محمد بن سعد ، عن ابيه ، قال: استاذن عمر على النبي صلى الله عليه وسلم وعنده جوار، قد علت اصواتهن على صوته، فاذن له، فبادرن، فذهبن، فدخل عمر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال عمر: اضحك الله سنك، يا رسول الله، بابي انت وامي، قال:" قد عجبت لجوار كن عندي، فلما سمعن حسك بادرن فذهبن"، فاقبل عليهن، فقال: اي عدوات انفسهن والله لرسول الله صلى الله عليه وسلم، كنتن احق ان تهبن مني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعهن عنك يا عمر، فوالله إن لقيك الشيطان بفج قط، إلا اخذ فجا غير فجك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ جَوَارٍ، قَدْ عَلَتْ أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ، فَبَادَرْنَ، فَذَهَبْنَ، فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قَالَ:" قَدْ عَجِبْتُ لِجَوَارٍ كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ حِسَّكَ بَادَرْنَ فَذَهَبْنَ"، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِنَّ، فَقَالَ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ وَاللَّهِ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُنْتُنَّ أَحَقَّ أَنْ تَهَبْنَ مِنِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُنَّ عَنْكَ يَا عُمَرُ، فَوَاللَّهِ إِنْ لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ بِفَجٍّ قَطُّ، إِلَّا أَخَذَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت ملی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کرلیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! واللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ تم ان سے ڈرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! انہیں چھوڑ دو، کیونکہ اللہ کی قسم! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“