مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ 10. مُسْنَدُ أَبِي إِسْحَاقَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کر دیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، مجاهد لم يسمع من سعد بن أبى وقاص
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مرجاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا، اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔“ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا، تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ : 56 ، م : 1628
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا (تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے: اباجان! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں، اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: خاموش رہو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي ، م : 2965
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 5445، م : 2047
عامر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں)، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیں، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں؟ اللہ کی پناہ! اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔ فائدہ: اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر 1460 میں آرہی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، م : 1364
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے، اور اس کے فیصلے پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي حميد متفق على ضعفه
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے، جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف ابن ابي حميد
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔“ اور شاید یہ بھی فرمایا کہ ”لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ابن لهيعة سي الحفظ ولكنه توبع
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن اخي سعد، ولاضطراب سنده
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه، والحديث مرسل
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہو جائیں، اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م : 966
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں ذکر ہوئی۔
حكم دارالسلام: راجع ما قبله
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ : (معلقاً بصيغة الجزم بعد الحديث : 202)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ انسان کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے“، سوائے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3812، م : 2483
ابوعثمان کہتے ہیں کہ جب زیاد کی نسبت کا مسئلہ بہت بڑھا تو ایک دن میری ملاقات سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے، تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 4326، م : 63
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک ڈھال کی قیمت کے برابر کوئی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو واقد الليثي ضعيف عند جمهور المحدثين
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن ابي حميد
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ حرم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرم قرار دیا ہے جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اے اللہ! اہل مدینہ کو دوگنی برکتیں عطاء فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م : 1362، 1387، وهذا إسناد حسن
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ : بعد الحديث : 202 معلقاً بصيغة الجزم
سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ رکھا ہے جو حرم مدینہ میں شکار کر رہا تھا، انہوں نے اس سے اس کے کپڑے چھین لئے، تھوڑی دیر بعد اس کے مالکان آگئے اور ان سے کپڑوں کا مطالبہ کرنے لگے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شہر مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ”جس شخص کو تم یہاں شکار کرتے ہوئے دیکھو، اس سے اس کا سامان چھین لو“، اس لئے اب میں تمہیں وہ لقمہ واپس نہیں کر سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھلایا ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1364
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر اس پر کوئی اضافہ نہ کرتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! آپ ایک رکعت وتر پڑھنے کے بعد کوئی اضافہ نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص وتر پڑھے بغیر نہ سوئے، وہ عقلمند ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وفي إسناده محمد بن عبد الرحمٰن مجهول
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں میرا گذر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا، میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے دو مرتبہ کہا کہ امیر المومنین! کیا اسلام میں کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں ابھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے مسجد میں گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ اپنے بھائی کے سلام کا جواب دینے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تو ایسا نہیں کیا، میں نے کہا: کیوں نہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی، میں نے بھی قسم کھا لی، تھوڑی دیر بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو یاد آگیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں! ایسا ہوا ہے، میں اللہ سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں، آپ ابھی ابھی میرے پاس سے گذرے تھے، دراصل میں اس وقت ایک بات سوچ رہا تھا جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، اور واللہ! جب بھی مجھے وہ بات یاد آتی ہے میری آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور میرے دل پر پردہ آجاتا ہے (یعنی مجھے اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی)۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اس کے بارے بتاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی گفتگو کی ابتداء میں ایک دعا کا ذکر چھیڑا، تھوڑی دیر کے بعد ایک دیہاتی آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر لیا، یہاں تک کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا گیا، جب مجھے اندیشہ ہوا کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچ چکے ہوں گے، تو میں نے زور سے اپنا پاؤں زمین پر مارا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: ”کون ہے؟ ابواسحاق ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکنے کے لئے فرمایا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سامنے ابتداء میں ایک دعا کا تذکرہ کیا تھا، بعد میں اس دیہاتی نے آ کر آپ کو اپنی طرف مشغول کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! وہ سیدنا یونس علیہ السلام کی دعا ہے جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی، یعنی «لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ» کوئی بھی مسلمان جب بھی کسی معاملے میں ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعا کرے وہ دعا ضرور قبول ہوگی۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچے تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھی، صرف نبوت کا فرق ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3706، م : 2404
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کر دے۔“ کسی نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نصف دن سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: پانچ سو سال۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى مريم ولانقطاعه، فإن رواية راشد عن سعد منقطعة
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کر دے۔“ کسی نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نصف دن سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: پانچ سو سال۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف كسابقه
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا: «﴿هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ﴾ [الأنعام: 65] » ”اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیج دے۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی اس کی تاویل ظاہر ہونے کا وقت نہیں آیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف أبى بكر بن عبدالله ولانقطاعه، فإن رواية راشد عن سعد منقطعة
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہو جائیں، اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 4054، م : 2306
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے، اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، معاذ التيمي لم يرو عنه غير سعد بن إبراهيم، ذكره ابن حبان فى الثقات وفي صحيحه
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: وهو مكرر ما قبله
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 4054، م : 2306
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کر لیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3294، م : 2396
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا)“، پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعا کی کہ ”اے اللہ! سعد کو شفاء دے، اور اس کی ہجرت کو تام فرما۔“ مجھے آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 56، م : 1628
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: «لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ» تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا، لیکن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي سلمة لم يدرك سعداً
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“ وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبدالله بن أبي نهيك لايعرف
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالرحمن ضعيف ثم هو لم يدرك سعداً وللجملة الأخيرة منه شاهد مرسل عن الحسن البصري وزياد بن جبير. ويؤيده حديث أبي هريره بلفظ : «اللهم ارزق آل محمد قوتاً.» أخرجه البخاري: 6460 ومسلم: 1055، واللفظ للبخاري .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کی اللہ کے راستہ میں وصیت نہ کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ عرض کیا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں؟ فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی کی وصیت کر دو، اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 56، م: 1628. وهذا إسناد ضعيف، عروة بن الزبير لم يسمع من سعد .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے اہل خانہ پر جو کچھ بھی خرچ کرو گے، تمہیں اس پر ثواب ملے گا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے، تمہیں اس پر بھی ثواب ملے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 56، م: 1628 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے۔“ نیز راوی کہتے ہیں کہ اس وقت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی ہی تھی، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں اتنی بلندی عطاء کرے کہ ایک قوم کو تم سے فائدہ ہو اور دوسروں کو نقصان ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 56، م: 1228
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائے گی۔“ اور یہ آیت تلاوت فرمائی: ” «﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ [الأعراف: 55] » ”تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ» ”اے اللہ! میں آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي سعد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا، اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 582 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 56، م: 1628 .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام:
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ جس علاقے سے وہ ہجرت کر چکے ہیں وہیں ان کا انتقال ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ”سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔“ اور ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں صدقہ کا ثواب ملے گا، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو تم اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں رفعتیں عطاء فرمائے اور تمہارے ذریعے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور بہت سے لوگوں (کافروں) کو نقصان۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 56، م: 1628
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م:966
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انہوں نے فرمایا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے ایک بات کا علم ہے تو تم مجھ سے بےتکلف ہو کر سوال کرو اور مت ڈرو، میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تیزی سے واپس چلے گئے، مجھے آج بھی ان کے قدموں سے اڑنے والا غبار اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218. وهذا إسناد ضعيف، يحيي بن سعد لم يذكر فيه جرح ولا تعديل .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی «اَلْحَمْدُ لِلّٰه» کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جو اپنی قوم میں کم حیثیت شمار ہوتا ہو، کیا اس کا اور دوسرے آدمی کا حصہ برابر ہو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس ہے، کیا کمزوروں کے علاوہ بھی کسی اور کے ذریعے تمہیں رزق ملتا اور تمہاری مدد ہوتی ہے؟“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 2896. وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مكحول لم يسمع من سعد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“)۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3725، م: 2412
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2698 .
ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ - جو اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکنے والے تھے - اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ - جو قلعہ طائف کی شہر پناہ پر چڑھنے والے تھے - دونوں سے یہ سنا ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4326، م: 63 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے آپ کو سات میں کا ساتواں آدمی پایا ہے (جس نے اسلام قبول کیا ہو)، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور پتوں کے کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہیں ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5412، م: 2966 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4326، م: 63 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن أبى حميد .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وصیت میں ایک تہائی کی مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حوالے سے مقرر فرمائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عیادت کے لئے تشریف لائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ”کیا تم نے وصیت کر دی؟“ میں نے کہا: جی! میں نے اپنا سارا مال فقراء، مساکین اور مسافروں کے نام وقف کرنے کی وصیت کر دی ہے، فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ میرے ورثاء غنی ہیں، بہرحال! میں دوتہائی کی وصیت کر دیتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کا ذکر کیا، فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے تہائی کا ذکر کیا، فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی صحیح ہے، اور یہ بھی زیادہ ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، خ: 56، م: 1628 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مرنے کے بعد مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکل آنے، بیماریوں کے متعدی ہونے، اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔“
حكم دارالسلام: إسناده جيد .
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، اس سال انہوں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا، ضحاک کہنے لگے کہ حج تمتع تو وہی آدمی کر سکتا ہے جو اللہ کے حکم سے نا واقف اور جاہل ہو، اس پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھتیجے! تم نے یہ بہت بری بات کہی، ضحاک کہنے لگے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تو اس سے منع کیا ہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح حج کیا ہے کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کر لیا، اور ہم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے، اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4326، م: 63 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھی۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3706، م: 2404 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2258 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے متعلق فرمایا: ”جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218 . وهذا إسناد ضعيف، يحيى بن سعد لم يذكر فيه جرح ولا تعديل .
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کیونکہ آپ کے مزاج میں حدت ہے، انہوں نے فرمایا: کون سی حدیث؟ میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟“ انہوں نے کہا: میں خوش ہوں، پھر دو مرتبہ کہا: کیوں نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد .
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لوگوں کو آپ سے ہر چیز حتی کہ نماز کے معاملے میں بھی شکایات ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 770، م: 453 .
عبداللہ بن رقیم کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دینے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة عبدالله بن الرقيم، وعبدالله بن شريك مختلف فيه .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، عبدالله بن أبى نهيك لا يعرف .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد اچانک سفر سے واپس آ کر اپنے اہل خانہ کو پریشان کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، ابن شهاب لم يدرك سعداً
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5073، م: 1402
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نا پسندیدہ قرار دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ہمارا گذر بنو معاویہ کی مسجد پر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعا فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا: ”میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کر لی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی، اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، لیکن اللہ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2890
عمر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے والد سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کوئی کام پڑ گیا، انہوں نے اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹا! آپ اپنی بات پوری کر چکے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: تم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ دور نہیں ہو (میں تمہاری ضرورت پوری کر دوں گا)، لیکن جب سے میں نے تم سے یہ بات سنی ہے، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وفي الإسناد الأول ضعف لجهالة الذى نسي اسمه أبو حيان يحيى بن سعيد. والسند الثاني ضعيف لانقطاعه ، مجمع لم يدرك أحداً من الصحابة .
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 755، م: 453
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق ہے، اور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، والحديث صحيح .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا اور ناگوار گذرنے والے امور کو معلوم کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7289، م: 2358 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان نہیں؟“ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ نہیں دیتا اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 27، م: 150 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ”فویسق“ رکھا ہے (جو کہ فاسق کی تصغیر ہے)۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2238.
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 56، م: 1628 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5073، م: 1402 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے دجال کے اوصاف ضرور ذکر کئے ہیں، لیکن میں تمہارے سامنے اس کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، ابن إسحاق مدلس وقد عنعن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3473، م: 2218 .
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5445، م: 2047 .
عمر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عامر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: بیٹا! کیا تم مجھے شورش کے کاموں کا سرغنہ بننے کے لئے کہتے ہو؟ واللہ! ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جائے اور میں اس سے کسی مومن کو قتل کر دوں تو وہ اس کی خبر اڑا دے، اور اگر کسی کافر کو قتل کر دوں تو وہ بھی اس پر پل پڑے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو، اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والإسناد فيه قلب، فالذي روى القصة هو عامر بن سعد، والذي جاء إلى سعد يأمره أن يكون رأساً هو عمر بن سعد، وقد تقدم على الصواب من غير هذا الطريق برقم: 1441 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا، جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5826، م: 2306.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے نے مجھے اپنے والد کے حوالے سے ایک حدیث سنائی، میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے مدینہ منورہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا؟ وہ یہ سن کر غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان کے بیٹے کا نام لینا مناسب نہ سمجھا، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! میری خواہش تو یہی ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں، میں آپ کے ہمراہ رہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3706، م: 2404
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ شخص کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے“، سوائے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
حكم دارالسلام: . إسناده صحيح، خ: 3812، م: 2483 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک دوسرے سے افضل تھا، اس افضل شخص کا پہلے انتقال ہو گیا اور دوسرا بھائی اس کے بعد چالیس دن تک مزید زندہ رہا، پھر وہ بھی فوت ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے پہلے کے افضل ہونے کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ دوسرا بھائی نماز نہیں پڑھتا تھا؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا خبر کہ اس کی نمازوں نے اسے کہاں تک پہنچا دیا؟“ پھر فرمایا کہ ”نماز کی مثال اس جاری نہر کی سی ہے جس کا پانی میٹھا اور شیریں ہو، اور وہ تمہارے گھر کے دروازے پر بہہ رہی ہو، اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غوطہ لگاتا ہو، تمہارا کیا خیال ہے، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل باقی رہے گا؟“
حكم دارالسلام: إسناده قوي .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2258 .
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، پیچھے سے خبر معلوم ہوئی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مضمون کی حدیث یہاں کون بیان کرتا ہے؟ لوگوں نے عامر بن سعد کا نام لیا، لیکن وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے، پھر میری ملاقات ابراہیم بن سعد سے ہوئی، انہوں نے مجھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی قوم میں طاعون کی وباء پھیل جائے تو تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں پہلے سے موجود ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھیل جائے تو وہاں سے نکلو مت۔“ میں نے ابراہیم سے پوچھا: کیا آپ نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت خود سنی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 3473، م: 2218 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ نے آج مجھے مشرکین سے بچا لیا ہے، اس لئے آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تلوار تمہاری ہے اور نہ میری، اس لئے اسے یہیں رکھ دو۔“ چنانچہ میں وہ تلوار رکھ کر واپس چلا گیا اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے شخص کو عطاء فرما دیں جسے میری طرح کی آزمائش نہ آئی ہو، اتنی دیر میں مجھے پیچھے سے ایک آدمی کی آواز آئی جو مجھے بلا رہا تھا، میں نے سوچا کہ شاید میرے بارے کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی، واقعی یہ تلوار میری نہ تھی لیکن اب مجھے بطور ہبہ کے مل گئی ہے، اس لئے میں تمہیں دیتا ہوں۔“ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ﴾ [الأنفال: 1] » اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ”یہ لوگ آپ سے مال غنیمت کا سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ جہینہ کے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے درمیان آکر قیام پذیر ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی وثیقہ لکھ دیجئے تاکہ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ پر ہمیں اطمینان ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وثیقہ لکھوا دیا، بعد میں وہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رجب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا، ہماری تعداد سو بھی نہیں ہوگی، اور ہمیں حکم دیا کہ قبیلہ جہینہ کے پہلو میں بنو کنانہ کا ایک قبیلہ آباد ہے، اس پر حملہ کریں، ہم نے ان پر شب خون مارا لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، چنانچہ ہم نے قبیلہ جہینہ میں پناہ لی لیکن انہوں نے ہمیں پناہ دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ اشہر حرم میں قتال کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم ان لوگوں سے قتال کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے شہر حرام میں نکال کر ان کی حرمت کو ختم کیا تھا۔ پھر ہم آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر انہیں ساری صورت حال سے مطلع کرتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم یہیں ٹھہریں گے، چند لوگوں کے ساتھ میری رائے یہ تھی کہ ہم لوگ قریش کے قافلے کی طرف چلتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں، چنانچہ لوگ قافلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت مال غنیمت کا اصول یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگ گئی، وہ اس کی ہو گئی، ہم میں سے کچھ لوگوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، اور فرمایا کہ ”تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے ہو کر گئے تھے، اور اب جدا جدا ہو کر آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو اسی تفرقہ نے ہی ہلاک کیا تھا، میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہوگا۔“ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا، جو اسلام میں سب سے پہلے امیر تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المجالد ضعيف وزياد بن علاقة لم يسمع من سعد .
سیدنا نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2900، هذالحديث من مسند نافع بن عتبة، ليس من مسند سعد .
سیدنا نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2900، هذالحديث من مسند نافع بن عتبة .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کھیتوں کے مالکان اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور بعض لوگوں کا اس میں جھگڑا بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین لینے دینے سے منع فرما دیا، اور فرمایا: ”سونے چاندی کے بدلے زمین کو کرایہ پر لیا دیا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة ضعيف ومحمد بن عكرمة مجهول .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں تھوک دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے چھپا دے تاکہ وہ کسی مسلمان کے جسم یا کپڑوں کو لگ کر اس کی اذیت کا سبب نہ بن جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے اس کو ناپسندیدہ سمجھا اور فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے یہی سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہ تھی لیکن اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہو گیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7289، م: 2358 .
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6733، م: 1628 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان، لكنه توبع .
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 755، م: 453 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبيد الله بن أبى نهيك لا يعرف .
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757 بدون ذكر طلحة .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پہاڑ یا چٹان کے گڑھے کی برائی اور نقصان یہ ہے کہ قبیلہ بجیلہ کا آدمی بھی بلندی سے پستی میں جا پڑتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بكر بن قرواش مجهول، والانقطاع بين العلاء وبين أبي الطفيل .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: کیا بغیر چھلکے کے جو کو عام جو کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کا سوال پوچھا تھا، تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ ”جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔“ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4326، م: 63 .
حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا: تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان صاحب کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جنہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی اور مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکلنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔ اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده جيد، خ: 3473، م: 2218 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میرے بھائی عمیر شہید ہو گئے اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار لے لی، جس کا نام «ذَا الْكَتِيفَةِ» تھا، میں وہ تلوار لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر یہ تلوار مال غنیمت میں ڈال دو۔“ مجھے اپنے بھائی کی شہادت کا جو غم تھا اور مال غنیمت کے حصول کا جو خیال تھا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورہ انفال نازل ہو گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر اپنی تلوار لے لو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا الإسناد ضعيف لأن محمد بن عبيد الله لم يدرك سعداً .
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 755، م:453
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کسی ناگہانی دھوکے یا برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1387 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف محمد بن عبدالرحمن ثم هو منقطع، ابن عبدالرحمن هذا لم يدرك سعداً .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ» ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب حکمت والا ہے۔“ یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو۔“ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے؟ فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَارْزُقْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي» ”اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے عافیت نصیب فرما۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2696 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“)۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3725، م: 2412 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2698 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا، اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مصعب بن ثابت لين الحديث لكنه توبع.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص مؤذن کی اذان سنتے وقت یہ کلمات کہے: «وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِينَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا» ”میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کو رب مان کر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول مان کر اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی اور مطمئن ہوں“، تو اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 386
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3728، م: 2966 .
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ میں نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔“ اس پر سورہ انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا: کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ واللہ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کردو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ . . . . . بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ [لقمان: 14-15] » ”ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے . . . . . لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو . . . . .۔“ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعوین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مد ہوش ہو گئے، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کر دیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کر دی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ تھے، اس پر سورہ مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہو گئی۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 1748 .
غنیم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس وقت حج تمتع کیا تھا جب انہوں نے یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کے گھروں میں اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. م: 1225 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2258 .
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے، انہوں نے میرے ہاتھوں پر ایک ضرب لگائی اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 790، م: 535 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھا لے، اسے اس دن کوئی زہر یا جادو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5445، م: 2047).
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5445، م: 2047 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے، اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے۔“ اور فرمایا کہ ”لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے، کاش! کہ انہیں اس پر یقین بھی ہو، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیں گے، اور جو شخص بھی یہاں کی تکالیف اور محنت و مشقت پر ثابت قدم رہتا ہے، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارش کروں گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1387 ،1363
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ”عالیہ“ سے آرہے تھے، راستے میں بنو معاویہ کی مسجد پر گذر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعا فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا: ”میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، جن میں سے دو اس نے قبول کر لیں اور ایک قبول نہیں کی۔ ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کر لی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی، اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، لیکن اللہ نے یہ دعا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2890 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں)، مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لئے، انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں اس سے منع کر دیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 790، م: 535 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا خزیمہ بن ثابت اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ طاعون ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3473، م: 2218 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں تمہارے سامنے دجال کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، أبن إسحاق مدلس وقد عنعن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان نہیں؟“ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ نہیں دیتا اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 27، م: 150 .
ابونعیم کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں میری ملاقات سفیان سے ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شجاع یعنی ابوبدر کیسے ہیں؟
حكم دارالسلام: هذا ليس بحديث، بل هو أثر عن أبى نعيم أن سفيان وهو الثوري - سأله عن أبى بدر شجاع بن الوليد، وحق هذا الأثر أن يكون بإثر الحديث السالف: (1572)، إذلا معنى لإيراده هنا .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے اور خاموش ہوگئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3294، م: 2396 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم لوگ اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین دینے سے منع فرما دیا، اور سونے چاندی کی بدلے زمین کو کرایہ پر دینے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة ضعيف ومحمد بن عكرمة مجهول .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4416، م:2404 .
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں اور فلاں فلاں چیز سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعا میں حد سے آگے بڑھ جائے گی، اور یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ [الأعراف: 55] » ”تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ تمہارے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ «اَللّٰهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ» ”اے اللہ! آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولي سعد .
مصعب کہتے ہیں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» ”اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6370 .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5073، م: 1402 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھا لی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مرتبہ یہ کہہ لو «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ» اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو، اور «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ» پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مَدِينَتِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ اَللّٰهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ وَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ سَأَلَكَ لِأَهْلِ مَكَّةَ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ» ”اے اللہ! اہل مدینہ کے لئے ان کا مدینہ مبارک فرما، اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما، اے اللہ! ابراہیم آپ کے بندے اور خلیل تھے اور میں آپ کا بندہ اور رسول ہوں، ابراہیم نے آپ سے اہل مکہ کے لئے دعا مانگی تھی، میں آپ سے اہل مدینہ کے لئے دعا مانگ رہا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ ”مدینہ منورہ ملائکہ کے جال میں جکڑا ہوا ہے، اس کے ہر سوراخ پر دو فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں، یہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے، جو اس کے ساتھ کوئی ناپاک ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1363، 1387 وهذا إسناد حسن .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ”مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1086 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد انتیس (29) کا مہینہ ہونا ہے)۔
حكم دارالسلام:
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ بعض اوقات اتنا، اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے۔“ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد انتیس (29) کا مہینہ ہوتا ہے)۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي، م: 1086
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی، جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره. وهذا إسناد ضعيف لأن زيد بن أسلم لم يسمع من سعد .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بہترین موت یہ ہے کہ انسان حق کی خاطر مر جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبوبكر بن حفص لم يسمع من جده الأعلي سعد بن أبي وقاص ، إبراهيم بن المهاجر مختلف فيه.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي، خ: 2744، م: 1628 .
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 3705، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف حمزة بن عبدالله وأبوه لا يعرفان .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اسی طرح کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 966.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا، اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: راجع ما قبله.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم طواف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، ہم میں سے بعض نے طواف میں سات چکر لگائے، بعض نے آٹھ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مجاهد لم يسمع من سعد. والحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ایمان کا آغاز بھی اس حال میں ہوا تھا کہ وہ اجنبی تھا، اور عنقریب یہ اسی حال پر لوٹ جائے گا جیسے اس کا آغاز ہوا تھا، اس موقع پر - جب لوگوں میں فساد پھیل جائے گا - غرباء کے لئے خوشخبری ہوگی، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے، ایمان ان دو مسجدوں کے درمیان اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده جيد.
سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”سوائے مسجد حرام کے دوسری مسجدوں کی نسبت میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بےرغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیتے ہیں، اور لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے، اور جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ برا ارادہ کرے گا، اسے اللہ اسی طرح پگھلا دے گا جیسے تانبا آگ میں یا نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1363.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے؟ فرمایا: ”انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے اپنا نائب بنا کر چھوڑ دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ نہیں ہے۔“ نیز میں نے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوگا۔“ ہم نے اس سعات کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، لیکن لسان نبوت سے ارشاد ہوا: ”علی کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔“ جب انہیں بلا کر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا، اور جھنڈا ان کے حوالے کر دیا، اللہ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی: «﴿نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ﴾ [آل عمران: 61] » ”ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم اجمعین کو بلایا اور فرمایا: ”اے اللہ! یہ میرے اہل خانہ ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي ، خ: 3706، م: 2404.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایام امتحان میں فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔“ راوی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے ارادے سے اپنا ہاتھ بڑھائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ”ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: ”یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں جو قریش میں ہاتھ کے سب سے سخی اور سب سے زیادہ جوڑ پیدا کرنے والے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ» ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔“ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے؟ فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي» ”اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما، مجھے رزق عطاء فرما۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2696.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2698.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللّٰهِ» کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح كسابقه.
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔“ اس پر سورہ انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعوین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مدہوش ہو گئے، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کر دیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں، اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کر دی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ تھے، اس پر سورہ مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہو گئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا: کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ واللہ! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کر دو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ [العنكبوت: 8] » ”ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔“ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 1748.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده جيد، خ: 3773، م: 2218.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر مجھ سے فرمایا: ”تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 3725، م: 2412. وهذا إسناد منقطع، فإن عكرمة لم يسمع من سعد.
یحییٰ بن عبید کہتے ہیں کہ محمد بن سعد ایک دن ہمارے سامنے بیت الخلاء سے نکلے اور وضو کرنے لگے، وضو کے دوران انہوں نے موزوں پر مسح کیا، ہمیں اس پر تعجب ہوا اور ہم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد صاحب نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی، اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہو گئی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3728، م: 2966.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 582، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو ڈھال سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا، کبھی وہ ڈھال کو اپنی ناک کے اوپر رکھ لیتا، کبھی اس سے نیچے کر لیتا، میں نے یہ دیکھ کر اپنے ترکش کی طرف توجہ کی، اس میں سے ایک خون آلود تیر نکالا اور اسے کمان میں جوڑا، جب اس نے ڈھال کو نیچے کیا تو میں نے اسے تاک کر تیر دے مارا، اس سے پہلے میں تیر کی لکڑی لگانا نہ بھولا تھا، تیر لگتے ہی وہ نیچے گر پڑا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھ گئیں، جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ”اس آدمی کی اس حرکت کی وجہ سے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة محمد بن محمد بن الأسود.
مصعب کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» ”اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2822.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھا لی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بےہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مرتبہ یہ کہہ لو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ» اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو، اور «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ» پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف. راجع للتفصيل: 1477.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت ملی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کرلیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! واللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ تم ان سے ڈرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! انہیں چھوڑ دو، کیونکہ اللہ کی قسم! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3294، م: 2396.
|