مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ 11. مسنَد سَعِیدِ بنِ زَیدِ بنِ عَمرِو بنِ نفَیل رَضِیَ اللَّه عَنه
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4478، م: 2049.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام:
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا الحديث تفرد به عبدالوارث بن سعيد والد عبدالصمد عن عطاء وهو خطأ، أخطأ فيه عطاء إذ كان قد اختلط ، ورواية عبدالوارث عنه بعد اختلاطه.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے، اور جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن زمین کا وہ حصہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
ایک مرتبہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے دائیں بائیں اہل کوفہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنی دیر میں سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ آگئے، سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خوش آمدید کہا اور چارپائی کی پائنتی کے پاس انہیں بٹھا لیا، کچھ دیر کے بعد ایک کوفی سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کسی کو گالیاں دینے لگا، انہوں نے پوچھا: مغیرہ! یہ کسے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو، انہوں نے تین مرتبہ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ان کا نام لے کر پکارا اور فرمایا: آپ کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور آپ لوگوں کو منع نہیں کر رہے اور نہ اپنی مجلس کو تبدیل کر رہے ہیں؟ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ میرے کانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے، اور میں ان سے کوئی جھوٹی بات روایت نہیں کرتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ایک نواں مسلمان بھی جنت میں ہوگا“، جس کا نام اگر میں بتانا چاہتا تو بتا سکتا ہوں۔ اہل مسجد نے بآواز بلند انہیں قسم دے کر پوچھا کہ اے صحابی رسول! وہ نواں آدمی کون ہے؟ فرمایا: تم مجھے اللہ کی قسم دے رہے ہو، اللہ کا نام بہت بڑا ہے، وہ نواں آدمی میں ہی ہوں اور دسویں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اس کے بعد وہ دائیں طرف چلے گئے اور فرمایا کہ واللہ! وہ ایک غزوہ جس میں کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا اور اس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہوا، وہ تمہارے ہر عمل سے افضل ہے اگرچہ تمہیں عمر نوح ہی مل جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل حراء سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے حراء! ٹھہر جا کہ تجھ پر کسی نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔“ اس وقت جبل حراء پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعید بن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف على هلال بن يساف فى هذا الحديث، والظاهر أنه سمعه من عبدالله بن ظالم عن سعيد بن زيد.
ایک مرتبہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے، ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا، جس پر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے، ابوبکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک اور ایک دسواں مسلمان بھی جنت میں ہوگا“، جس کا نام اگر میں بتانا چاہوں تو بتا سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 4478، م: 2049.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے، اور جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن زمین کا وہ حصہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2452، م: 1610.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو دست مبارک میں کھنبی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو یہ کیا چیز ہے؟ یہ کھنبی ہے کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4478، م 2049 .
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کھنبی بھی «مَنّ» سے تعلق رکھتی ہے (جو بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا)، اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے باعث شفاء ہے۔“
حكم دارالسلام:
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام:
ایک مرتبہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے، ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا، جس پر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے، ابوبکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک جنت میں ہوں گے۔“ پھر فرمایا کہ دسویں آدمی کا نام اگر میں بتانا چاہوں تو بتا سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح.
عبداللہ بن ظالم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے کہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی، اس پر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے اور فرمایا: تمہیں اس شخص پر تعجب نہیں ہو رہا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ جبل حراء یا احد پر تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل حراء سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے حراء! ٹھہر جا، کہ تجھ پر کسی نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کے نام لئے جن میں سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعید بن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن زمین کا وہ حصہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔“ دوسری سند سے اس میں یہ اضافہ بھی مروی ہے کہ ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے، وہ شہید ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2452، م: 1610.
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے کہا کہ جا کر ان دونوں یعنی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور راوی کے درمیان صلح کرا دو، سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے اس عورت کا کچھ حق مارا ہوگا؟ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص ناحق کسی زمین پر ایک بالشت بھر قبضہ کرتا ہے، اس کے گلے میں زمین کا وہ ٹکڑا ساتوں زمینوں سے لے کر طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، اور جو شخص کسی قوم کی اجازت کے بغیر ان سے موالات کی نسبت اختیار کرتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اور جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کر لیتا ہے اللہ اس میں کبھی برکت نہیں دیتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي، خ: 3198، م 1610 .
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن وہ حصہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2452، م: 1610.
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میرے پاس اروی بنت اویس نامی خاتون قریش کی ایک جماعت کے ساتھ آئی، جن میں عبدالرحمن بن عمرو بن سہیل بھی تھے، اور کہنے لگی کہ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میری زمین کا کچھ حصہ اپنی زمین میں شامل کر لیا ہے حالانکہ وہ ان کا نہیں ہے، میں چاہتی ہوں کہ آپ ان کے پاس جا کر ان سے اس سلسلے میں بات چیت کریں۔ ہم لوگ اپنی سواری پر سوار ہو کر ان کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت وہ وادی عقیق میں اپنی زمینوں میں تھے، انہوں نے جب ہمیں دیکھا تو فرمایا: میں سمجھ گیا کہ تم لوگ کیوں آئے ہو؟ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ ”جو شخص زمین کا کوئی حصہ اپنے قبضے میں کر لے حالانکہ وہ اس کا مالک نہ ہو تو وہ اس کے گلے میں ساتوں زمینوں تک قیامت کے دن طوق بنا کر ڈالا جائے گا، اور جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2452، م: 1610.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن وہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بناکر ڈالا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2452، م: 1610. بقية بن الوليد صرح بالتحديث، وهو متابع.
عبداللہ بن ظالم کہتے ہیں کہ جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے روانہ ہوئے تو وہاں کا گورنر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو بنا دیا، (کچھ لوگوں نے ان سے تقریر کرنے کی اجازت مانگی) انہوں نے اجازت دے دی، وہ لوگ کھڑے ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے لگے، میں سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا تھا، وہ غصے میں آ کر وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور فرمایا: آپ کی موجودگی میں ایک جنتی کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور آپ لوگوں کو منع نہیں کر رہے، میں اس بات کا گواہ ہوں کہ نو آدمی جنت میں ہوں گے، اور اگر دسویں کے متعلق گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا، میں نے ان سے اس کی تفصیل پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حراء! ٹھہر جا کہ تجھ پر سوائے نبی، صدیق اور شہید کے کوئی نہیں ہے۔“ میں نے ان کے نام پوچھے تو انہوں نے فرمایا: خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعد بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین، پھر خاموش ہوگئے، میں نے دسویں آدمی کا پوچھا تو فرمایا: وہ میں ہی ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل جنت میں سے ہیں، راوی نے پوچھا وہ کیسے؟ تو فرمایا کہ وہ نو افراد میں شال ہیں اور میں دسویں آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں، ایک مرتبہ حراء پہاڑ لرزنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حراء! ٹھہر جا کہ تجھ پر نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔“ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعد بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین اور میں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایک بالشت بھر زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، قیامت کے دن وہ ساتوں زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 2452، م: 1610. وهذا إسناد حسن.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں کا ذکر فرمایا جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح چھا جائیں گے، اور لوگ اس میں بڑی تیزی سے دنیا سے جانے لگیں گے، کسی نے پوچھا کہ کیا یہ سب ہلاک ہوں گے یا بعض؟ فرمایا: ”قتل کے اعتبار سے ان کا معاملہ ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ - جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور ان کے ساتھ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے - زید بن عمرو بن نفیل کا ان دونوں کے پاس سے گذر ہوا، ان دونوں نے زید کو کھانے کی دعوت دی کیونکہ وہ اس وقت دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے، زید کہنے لگے کہ بھتیجے! بتوں کے سامنے لے جا کر ذبح کئے جانے والے جانوروں کا گوشت میں نہیں کھاتا (یہ قبل از بعثت کا واقعہ ہے)، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس قسم کا کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ سیدنا سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک دن بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد صاحب کو آپ نے خود بھی دیکھا ہے اور آپ کو ان کے حوالے سے معلوم بھی ہے، اگر وہ آپ کا زمانہ نبوت پا لیتے تو آپ پر ایمان لا کر آپ کی پیروی ضرور کرتے، آپ ان کے لئے استغفار کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں ان کے لئے استغفار کروں گا کیونکہ قیامت کے دن انہیں تنہا ایک امت کے برابر اٹھایا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف، المسعودي قد اختلط ويزيد روى عنه بعد الاختلاط ونفيل بن هشام وكذا أبوه لم يوثقهما غير ابن حبان.
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے کہا کہ جا کر ان دونوں یعنی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور راوی کے درمیان صلح کرا دو، ہم سیدنا سعید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے اس عورت کا کچھ حق مارا ہوگا؟ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص ناحق کسی زمین پر ایک بالشت بھر قبضہ کرتا ہے، اس کے گلے میں زمین کا وہ ٹکڑا ساتوں زمینوں سے لے کر طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، اور جو شخص کسی قوم کی اجازت کے بغیر ان سے موالات کی نسبت اختیار کرتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اور جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کر لیتا ہے، اللہ اس میں کبھی برکت نہیں دیتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي، خ: 2452، م: 1610 .
عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مدینہ منورہ حاضری کے موقع پر اپنے بھائی سے حصہ تقسیم کروا لیا، اس پر سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اس زمین یا مکان کی قیمت میں برکت نہیں ہوتی جو زمین یا مکان ہی میں نہ لگا دی جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، قيس بن الربيع ضعيف. وفي الباب عن حذيفة مرفوعاً وموقوفاً، والموقوف أصح.
عبداللہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت لقمان علیہ السلام کا یہ قول معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹے! علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعے علماء پر فخر کرو اور جہلاء اور بیوقوفوں سے جھگڑتے پھرو، اور محفلوں میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگو۔ پھر انہوں نے سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے بڑا سود یہ ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی کی جائے، رحم (قرابت داری) رحمٰن کی شاخ ہے، جو شخص قرابت داری ختم کرے گا، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: قول لقمان بلاغ، فهو منقطع، وأما القسم المرفوع، فإسناده صحيح.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے، جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے، اور جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي.
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ عرب! اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اس نے تم سے ٹیکس اٹھا دیئے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف. إبراهيم بن المهاجر لين الحديث والراوي عن عمرو بن حريث لا يعرف.
|