(حديث مرفوع) حدثنا زياد بن الربيع ابو خداش ، حدثنا واصل مولى ابي عيينة، عن بشار بن ابي سيف الجرمي ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن عياض بن غطيف ، قال: دخلنا على ابي عبيدة بن الجراح نعوده من شكوى اصابه، وامراته تحيفة قاعدة عند راسه، قلت: كيف بات ابو عبيدة؟ قالت: والله لقد بات باجر، فقال ابو عبيدة : ما بت باجر وكان مقبلا بوجهه على الحائط، فاقبل على القوم بوجهه، فقال: الا تسالونني عما قلت؟ قالوا: ما اعجبنا، ما قلت: فنسالك عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من انفق نفقة فاضلة في سبيل الله، فبسبع مائة، ومن انفق على نفسه واهله، او عاد مريضا، او ماز اذى، فالحسنة بعشر امثالها، والصوم جنة ما لم يخرقها، ومن ابتلاه الله ببلاء في جسده، فهو له حطة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو خِدَاشٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ الْجَرْمِيِّ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُودُهُ مِنْ شَكْوًى أَصَابَهُ، وَامْرَأَتُهُ تُحَيْفَةُ قَاعِدَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ، قُلْتُ: كَيْفَ بَاتَ أَبُو عُبَيْدَةَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ بَاتَ بِأَجْرٍ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : مَا بِتُّ بِأَجْرٍ وَكَانَ مُقْبِلًا بِوَجْهِهِ عَلَى الْحَائِطِ، فَأَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونَنِي عَمَّا قُلْتُ؟ قَالُوا: مَا أَعْجَبَنَا، مَا قُلْتَ: فَنَسْأَلُكَ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبِسَبْعِ مِائَةٍ، وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ، أَوْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ مَازَ أَذًى، فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا، وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ".
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ - جن کا نام تحیفہ تھا - ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری؟ انہوں نے کہا: واللہ! انہوں نے ساری رات اجر و ثواب کے ساتھ گذاری ہے، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کر لیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کی ایسی صفات بیان فرمائیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں، البتہ اتنی بات یاد ہے کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت آج کی نسبت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ فرمایا: ”آج سے بہتر ہوگی۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن سراقة لم يوثقه غير ابن حبان والعجلي ولم يرو عنه غير عبدالله بن شقيق ولا يعرف سماع ابن سراقة من أبى عبيدة.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان , وعبد الصمد ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، انبانا خالد الحذاء ، عن عبد الله بن شقيق ، عن عبد الله بن سراقة ، عن ابي عبيدة بن الجراح ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إنه لم يكن نبي بعد نوح إلا وقد انذر الدجال قومه، وإني انذركموه"، قال: فوصفه لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" ولعله يدركه بعض من رآني، او سمع كلامي"، قالوا: يا رسول الله، كيف قلوبنا يومئذ امثلها اليوم؟ قال:" او خير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ , وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَهُ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ"، قَالَ: فَوَصَفَهُ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" وَلَعَلَّهُ يُدْرِكُهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي، أَوْ سَمِعَ كَلَامِي"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ أَمِثْلُهَا الْيَوْمَ؟ قَالَ:" أَوْ خَيْرٌ".
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہر آنے والے نبی نے اپنی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے، اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی کچھ صفات بیان فرمائیں، اور فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا یا میری باتیں سننے والا کوئی شخص اسے پا لے۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کیا آج کی طرح ہوں گے؟ فرمایا: ”بلکہ اس سے بھی بہتر کیفیت ہوگی۔“
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان نے کسی شخص کو پناہ دے دی، اس وقت امیر لشکر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ اسے پناہ نہ دی جائے، لیکن سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اسے پناہ دیں گے، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن . لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان بن عمرو ، حدثنا ابو حسبة مسلم بن اكيس مولى عبد الله بن عامر، عن ابي عبيدة بن الجراح ، قال: ذكر من دخل عليه فوجده يبكي، فقال: ما يبكيك يا ابا عبيدة؟ فقال: نبكي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوما ما يفتح الله على المسلمين، ويفيء عليهم حتى ذكر الشام، فقال:" إن ينسا في اجلك يا ابا عبيدة، فحسبك من الخدم ثلاثة خادم يخدمك، وخادم يسافر معك، وخادم يخدم اهلك ويرد عليهم , وحسبك من الدواب ثلاثة: دابة لرحلك، ودابة لثقلك، ودابة لغلامك"، ثم هذا انا انظر إلى بيتي قد امتلا رقيقا، وانظر إلى مربطي قد امتلا دواب وخيلا، فكيف القى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذا؟ وقد اوصانا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احبكم إلي، واقربكم مني من لقيني على مثل الحال الذي، فارقني عليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو حِسْبَةَ مُسْلِمُ بْنُ أُكَيْسٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ: ذَكَرَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ فَقَالَ: نَبْكِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمًا مَا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَيُفِيءُ عَلَيْهِمْ حَتَّى ذَكَرَ الشَّامَ، فَقَالَ:" إِنْ يُنْسَأْ فِي أَجَلِكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، فَحَسْبُكَ مِنَ الْخَدَمِ ثَلَاثَةٌ خَادِمٌ يَخْدُمُكَ، وَخَادِمٌ يُسَافِرُ مَعَكَ، وَخَادِمٌ يَخْدُمُ أَهْلَكَ وَيَرُدُّ علَيْهِمْ , وَحَسْبُكَ مِنَ الدَّوَابِّ ثَلَاثَةٌ: دَابَّةٌ لِرَحْلِكَ، وَدَابَّةٌ لِثَقَلِكَ، وَدَابَّةٌ لِغُلَامِكَ"، ثُمَّ هَذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى بَيْتِي قَدْ امْتَلَأَ رَقِيقًا، وَأَنْظُرُ إِلَى مِرْبَطِي قَدْ امْتَلَأَ دَوَابَّ وَخَيْلًا، فَكَيْفَ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذَا؟ وَقَدْ أَوْصَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ، وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي مَنْ لَقِيَنِي عَلَى مِثْلِ الْحَالِ الَّذِي، فَارَقَنِي عَلَيْهَا".
ایک مرتبہ ایک صاحب سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوعبیدہ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے، اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے، اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے، اور ایک اپنے غلام کے لئے۔“ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کس منہ سے کروں گا؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ ”میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مسلم بن أكيس مجهول، وروايته عن أبى عبيدة مرسلة.
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني ابان بن صالح ، عن شهر بن حوشب الاشعري ، عن رابه رجل من قومه، كان خلف على امه بعد ابيه، كان شهد طاعون عمواس، قال: لما اشتعل الوجع قام ابو عبيدة بن الجراح في الناس خطيبا، فقال:" ايها الناس، إن هذا الوجع رحمة ربكم دعوة نبيكم، وموت الصالحين قبلكم، وإن ابا عبيدة يسال الله، ان يقسم له منه حظه؟ قال: فطعن، فمات رحمه الله، واستخلف على الناس معاذ بن جبل، فقام خطيبا بعده، فقال: ايها الناس، إن هذا الوجع رحمة ربكم، ودعوة نبيكم، وموت الصالحين قبلكم، وإن معاذا، يسال الله، ان يقسم لآل معاذ منه حظه؟ قال: فطعن ابنه عبد الرحمن بن معاذ، فمات، ثم قام، فدعا ربه لنفسه، فطعن في راحته فلقد رايته ينظر إليها، ثم يقبل ظهر كفه، ثم يقول: ما احب ان لي بما فيك شيئا من الدنيا، فلما مات استخلف على الناس عمرو بن العاص، فقام فينا خطيبا , فقال: ايها الناس، إن هذا الوجع إذا وقع، فإنما يشتعل اشتعال النار، فتجبلوا منه في الجبال، قال: فقال له ابو واثلة الهذلي: كذبت والله لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانت شر من حماري هذا، قال والله ما ارد عليك، ما تقول، وايم الله لا نقيم عليه، ثم خرج وخرج الناس، فتفرقوا عنه ودفعه الله عنهم، قال: فبلغ ذلك عمر بن الخطاب من راي عمرو، فوالله ما كرهه، قال ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد بن حنبل: ابان بن صالح جد ابي عبد الرحمن مشكدانة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَابِّهِ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، كَانَ خَلَفَ عَلَى أُمِّهِ بَعْدَ أَبِيهِ، كَانَ شَهِدَ طَاعُونَ عَمَوَاسَ، قَالَ: لَمَّا اشْتَعَلَ الْوَجَعُ قَامَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ َدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهُ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَاسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَقَامَ خَطِيبًا بَعْدَهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ، وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ مُعَاذًا، يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لِآلِ مُعَاذٍ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ ابْنُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ، فَمَاتَ، ثُمَّ قَامَ، فَدَعَا رَبَّهُ لِنَفْسِهِ، فَطُعِنَ فِي رَاحَتِهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ يُقَبِّلُ ظَهْرَ كَفِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمَا فِيكِ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا، فَلَمَّا مَاتَ اسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا , فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ، فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ، فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو وَاثِلَةَ الْهُذَلِيُّ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ شَرٌّ مِنْ حِمَارِي هَذَا، قَالَ وَاللَّهِ مَا أَرُدُّ عَلَيْكَ، مَا تَقُولُ، وَايْمُ اللَّهِ لَا نُقِيمُ عَلَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ النَّاسُ، فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ وَدَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو، فَوَاللَّهِ مَا كَرِهَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ: أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ جَدُّ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُشْكُدَانَةَ.
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور ابوعبیدہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمہ اللہ۔ ان کے بعد سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کی نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت، اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور معاذ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہو گئے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعا کی، چنانچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھے پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔ بہرحال! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! یہ تکلیف جب آ جاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابوواثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، واللہ! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن واللہ! ہم اس حالت پر نہیں رہیں گے، چنانچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہو گئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شهر بن حوشب ضعيف، وشيخه فيه مجهول .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن داود ، عن عامر ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش ذات السلاسل، فاستعمل ابا عبيدة على المهاجرين، واستعمل عمرو بن العاص على الاعراب، فقال لهما: تطاوعا، قال: وكانوا يؤمرون ان يغيروا على بكر، فانطلق عمرو، فاغار على قضاعة لان بكرا اخواله، فانطلق المغيرة بن شعبة إلى ابي عبيدة، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعملك علينا، وإن ابن فلان قد ارتبع امر القوم وليس لك معه امر، فقال ابو عبيدة : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" امرنا، ان نتطاوع، فانا اطيع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن عصاه عمرو".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ ذَاتِ السُّلَاسِلِ، فَاسْتَعْمَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَاسْتَعْمَلَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَى الْأَعْرَابِ، فَقَالَ لَهُمَا: تَطَاوَعَا، قَالَ: وَكَانُوا يُؤْمَرُونَ أَنْ يُغِيرُوا عَلَى بَكْرٍ، فَانْطَلَقَ عَمْرٌو، فَأَغَارَ عَلَى قُضَاعَةَ لِأَنَّ بَكْرًا أَخْوَالُهُ، فَانْطَلَقَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَكَ عَلَيْنَا، وَإِنَّ ابْنَ فُلَانٍ قَدْ ارْتَبَعَ أَمْرَ الْقَوْمِ وَلَيْسَ لَكَ مَعَهُ أَمْرٌ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَنَا، أَنْ نَتَطَاوَعَ، فَأَنَا أُطِيعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ عَصَاهُ عَمْرٌو".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جیش ذات السلاسل کو روانہ فرمایا تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین پر اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دیہاتیوں پر امیر مقرر فرمایا، اور دونوں سے فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی بات ماننا“، راوی کہتے ہیں کہ انہیں بنو بکر پر حملہ کرنے حکم دیا گیا تھا لیکن سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے بنو قضاعہ پر حملہ کر دیا کیونکہ بنو بکر سے ان کی رشتہ داری بھی تھی، یہ دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہم پر امیر مقرر کر کے بھیجا ہے جبکہ فلاں کا بیٹا لوگوں کے معاملات پر غالب آگیا ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا حکم نہیں چلتا؟ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دوسرے کی بات ماننے کا حکم دیا تھا، میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرتا رہوں گا، خواہ عمرو نہ کریں۔
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وقول وكيع فيه: «عن إسحاق بن سعد بن سمرة» وهم، والصواب: سعد بن سمرة .
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا هشام ، عن واصل ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن عياض بن غطيف ، قال: دخلنا على ابي عبيدة نعوده، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من انفق نفقة فاضلة في سبيل الله، فبسبع مائة، ومن انفق على نفسه، او على اهله، او عاد مريضا، او ماز اذى عن طريق، فهي حسنة بعشر امثالها، والصوم جنة ما لم يخرقها، ومن ابتلاه الله ببلاء في جسده، فهو له حطة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ نَعُودُهُ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبِسَبْعِ مِائَةٍ، وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ، أَوْ عَلَى أَهْلِهِ، أَوْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ مَازَ أَذًى عَنْ طَرِيقٍ، فَهِيَ حَسَنَةٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا، وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بَبَلَاءً فِي جَسَدِهِ، فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ".
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوں گی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے، وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن كان واصل سمعه من الوليد بن عبدالرحمن.