(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر وسفيان ، عن سعد بن إبراهيم ، قال سفيان: عن عامر بن سعد ، وقال مسعر: عن بعض آل سعد , عن سعد ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه يعوده، وهو مريض بمكة، فقلت: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا" , قلت: فبالشطر؟ قال:" لا" , قلت: فبالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كبير، او كثير، إنك ان تدع وارثك غنيا، خير من ان تدعه فقيرا يتكفف الناس، وإنك مهما انفقت على اهلك من نفقة، فإنك تؤجر فيها، حتى اللقمة ترفعها إلى في امراتك" , قال: ولم يكن له يومئذ إلا ابنة، فذكر سعد الهجرة، فقال:" يرحم الله ابن عفراء، ولعل الله ان يرفعك حتى ينتفع بك قوم، ويضر بك آخرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ سُفْيَانُ: عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، وَقَالَ مِسْعَرٌ: عَنْ بَعْضِ آلِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ، وَهُوَ مَرِيضٌ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: فَبِالشَّطْرِ؟ قَالَ:" لَا" , قُلْتُ: فَبِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ، أَوْ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَارِثَكَ غَنِيًّا، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُ فَقِيرًا يَتَكَفَّفُ النَّاسَ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ عَلَى أَهْلِكَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّكَ تُؤْجَرُ فِيهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ" , قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ، فَذَكَرَ سَعْدٌ الْهِجْرَةَ، فَقَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَرْفَعُكَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ قَوْمٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے۔“ نیز راوی کہتے ہیں کہ اس وقت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی ہی تھی، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں اتنی بلندی عطاء کرے کہ ایک قوم کو تم سے فائدہ ہو اور دوسروں کو نقصان ہو۔“