سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عبداللہ، ابوعبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه، ابن ابي مليكة لم يدرك طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا نافع بن عمر , وعبد الجبار بن الورد , عن ابن ابي مليكة ، قال: قال طلحة بن عبيد الله : لا احدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، إلا اني سمعته , يقول" إن عمرو بن العاص رضي الله عنه , من صالح قريش" , قال: وزاد عبد الجبار بن ورد، عن ابن ابي مليكة، عن طلحة , قال:" نعم اهل البيت عبد الله، وابو عبد الله، وام عبد الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ , وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ : لَا أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُهُ , يَقُولُ" إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , مِنْ صَالِحِ قُرَيْشٍ" , قَالَ: وَزَادَ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَرْدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ طَلْحَةَ , قَالَ:" نِعْمَ أَهْلُ الْبَيْتِ عَبْدُ اللَّهِ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَأُمُّ عَبْدِ اللَّهِ.
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے احادیث بیان کرنا میری عادت نہیں ہے، البتہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”عمرو بن العاص قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں، اور عبداللہ، ابوعبداللہ اور ام عبداللہ کیا خوب گھرانے والے ہیں۔“
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا، اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط , حدثنا مطرف ، عن عامر ، عن يحيى بن طلحة ، عن ابيه ، قال: راى عمر طلحة بن عبيد الله ثقيلا، فقال: ما لك يا ابا فلان، لعلك ساءتك إمرة ابن عمك يا ابا فلان؟ قال: لا، إلا اني سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا ما منعني ان اساله عنه إلا القدرة عليه حتى مات , سمعته يقول:" إني لاعلم كلمة، لا يقولها عبد عند موته , إلا اشرق لها لونه، ونفس الله عنه كربته" , قال: فقال عمر رضي الله عنه: إني لاعلم ما هي , قال: وما هي؟ قال: تعلم كلمة اعظم من كلمة امر بها عمه عند الموت لا إله إلا الله , قال طلحة: صدقت، هي والله هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ , حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَى عُمَرُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ثَقِيلًا، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا فُلَانٍ، لَعَلَّكَ سَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ يَا أَبَا فُلَانٍ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا مَا مَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْهُ إِلَّا الْقُدْرَةُ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ , سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً، لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ , إِلَّا أَشْرَقَ لَهَا لَوْنُهُ، وَنَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَتَهُ" , قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا هِيَ , قَالَ: وَمَا هِيَ؟ قَالَ: تَعْلَمُ كَلِمَةً أَعْظَمَ مِنْ كَلِمَةٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّهُ عِنْدَ الْمَوْتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , قَالَ طَلْحَةُ: صَدَقْتَ، هِيَ وَاللَّهِ هِيَ.
یحییٰ بن طلحہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو اور اللہ اس کی پریشانی دور کرے، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، یعنی: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ»، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا، واللہ! وہی ایسا کلمہ ہو سکتا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا وكيع ، عن إسماعيل ، قال: قال قيس : رايت طلحة يده شلاء، وقى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: قَالَ قَيْسٌ : رَأَيْتُ طَلْحَةَ يَدُهُ شَلَّاءُ، وَقَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ.
قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس ہاتھ کا دیدار کیا ہے جو شل ہو گیا تھا، یہ وہی مبارک ہاتھ تھا جس کے ذریعے انہوں نے غزوہ احد کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنے ہاتھ پر مشرکین کے تیر روکے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن مهدي ، حدثنا صالح بن عمر ، عن مطرف ، عن الشعبي ، عن يحيى بن طلحة بن عبيد الله , عن ابيه , ان عمر رضي الله عنه , رآه كئيبا، فقال: ما لك يا ابا محمد كئيبا، لعله ساءتك إمرة ابن عمك؟ يعني ابا بكر، قال: لا، واثنى على ابي بكر، ولكني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" كلمة لا يقولها عبد عند موته إلا فرج الله عنه كربته، واشرق لونه" , فما منعني ان اساله عنها إلا القدرة عليها حتى مات , فقال له عمر رضي الله عنه: إني لاعلمها , فقال له طلحة: وما هي؟ فقال له عمر رضي الله عنه: هل تعلم كلمة هي اعظم من كلمة امر بها عمه لا إله إلا الله؟ فقال طلحة: هي، والله هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , رَآهُ كَئِيبًا، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ كَئِيبًا، لَعَلَّهُ سَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، قَالَ: لَا، وَأَثْنَى عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" كَلِمَةٌ لَا يَقُولُهَا عَبْدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَتَهُ، وَأَشْرَقَ لَوْنُهُ" , فَمَا مَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْهَا إِلَّا الْقُدْرَةُ عَلَيْهَا حَتَّى مَاتَ , فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي لَأَعْلَمُهَا , فَقَالَ لَهُ طَلْحَةُ: وَمَا هِيَ؟ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ تَعْلَمُ كَلِمَةً هِيَ أَعْظَمَ مِنْ كَلِمَةٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ: هِيَ، وَاللَّهِ هِيَ.
یحییٰ بن طلحہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو اور اللہ اس کی پریشانیاں دور کرے، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، یعنی: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ» سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا، واللہ! وہی ایسا کلمہ ہو سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله ، حدثني محمد بن معن الغفاري ، اخبرني داود بن خالد بن دينار , انه مر هو ورجل يقال له: ابو يوسف من بني تيم، على ربيعة بن ابي عبد الرحمن رضي الله عنه , قال: قال له ابو يوسف: إنا لنجد عند غيرك من الحديث ما لا نجده عندك , فقال: اما إن عندي حديثا كثيرا، ولكن ربيعة بن الهدير , قال: وكان يلزم طلحة بن عبيد الله إنه لم يسمع طلحة يحدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا قط غير حديث واحد , قال ربيعة بن ابي عبد الرحمن: قلت له: وما هو؟ قال: قال لي طلحة : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اشرفنا على حرة واقم، قال: فدنونا منها، فإذا قبور بمحنية، فقلنا: يا رسول الله، قبور إخواننا هذه؟ قال:" قبور اصحابنا" , ثم خرجنا حتى إذا جئنا قبور الشهداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذه قبور إخواننا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْغِفَارِيُّ ، أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ دِينَارٍ , أَنَّهُ مَرَّ هُوَ وَرَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو يُوسُفَ مِنْ بَنِي تَيْمٍ، عَلَى رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ لَهُ أَبُو يُوسُفَ: إِنَّا لَنَجِدُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنَ الْحَدِيثِ مَا لَا نَجِدُهُ عِنْدَكَ , فَقَالَ: أَمَا إِنَّ عِنْدِي حَدِيثًا كَثِيرًا، وَلَكِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ الْهُدَيْرِ , قَالَ: وَكَانَ يَلْزَمُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَ حَدِيثٍ وَاحِدٍ , قَالَ رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لَهُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: قَالَ لِي طَلْحَةُ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَشْرَفْنَا عَلَى حَرَّةِ وَاقِمٍ، قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْهَا، فَإِذَا قُبُورٌ بِمَحْنِيَّةٍ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُبُورُ إِخْوَانِنَا هَذِهِ؟ قَالَ:" قُبُورُ أَصْحَابِنَا" , ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى إِذَا جِئْنَا قُبُورَ الشُّهَدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا".
داؤد بن خالد بن دینار کہتے ہیں کہ ان کا اور بنو تیم کے ایک شخص کا - جس کا نام ابویوسف تھا - ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے پاس سے گذر ہوا، ابویوسف نے ان سے کہا کہ ہمیں آپ کے علاوہ دیگر حضرات کے پاس ایسی احادیث مل جاتی ہیں جو آپ کے پاس نہیں ملتیں؟ انہوں نے فرمایا کہ احادیث تو میرے پاس بھی بہت زیادہ ہیں لیکن میں نے ربیعہ بن ہدیر کو - جو کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چمٹے رہتے تھے - یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو سوائے ایک حدیث کے کوئی اور حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایک حدیث کون سی ہے؟ تو بقول ربیعہ کے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب ہم حرہ واقم نامی جگہ پر (جو کہ مدینہ منورہ میں ایک ٹیلہ ہے) پہنچے اور اس کے قریب ہوئے تو ہمیں کمان کی طرح خمدار کچھ قبریں دکھائی دیں، ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہمارے اصحاب کی قبریں ہیں“، پھر ہم وہاں سے نکل کر جب شہداء کی قبروں پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے بھائیوں کی قبریں یہ ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عمر بن عبيد , عن سماك بن حرب ، عن موسى بن طلحة , عن ابيه ، قال: كنا نصلي والدواب تمر بين ايدينا، فذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" مثل مؤخرة الرحل تكون بين يدي احدكم، ثم لا يضره ما مر عليه" , وقال عمر مرة:" بين يديه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي وَالدَّوَابُّ تَمُرُّ بَيْنَ أَيْدِينَا، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ تَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ، ثُمَّ لَا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ عَلَيْهِ" , وَقَالَ عُمَرُ مَرَّةً:" بَيْنَ يَدَيْهِ".
موسیٰ بن طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو جانور ہمارے سامنے سے گذرتے رہتے تھے، ہم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اگر تمہارے سامنے کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح کوئی چیز ہو (جو بطور سترہ کے گاڑ لی گئی ہو) تو پھر جو مرضی چیز گذرتی رہے، تمہاری نماز میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة ، قال: نزل رجلان من اهل اليمن على طلحة بن عبيد الله، فقتل احدهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم مكث الآخر بعده سنة، ثم مات على فراشه، فاري طلحة بن عبيد الله ان الذي مات على فراشه دخل الجنة قبل الآخر بحين، فذكر ذلك طلحة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كم مكث بعده؟" , قال: حولا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلى الفا وثمان مئة صلاة، وصام رمضان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: نَزَلَ رَجُلَانِ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ عَلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقُتِلَ أَحَدُهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَأُرِيَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ الَّذِي مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْآخَرِ بِحِينٍ، فَذَكَرَ ذَلِكَ طَلْحَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَمْ مَكَثَ بَعْدَهُ؟" , قَالَ: حَوْلًا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى أَلْفًا وَثَمَانِ مِئَةِ صَلَاةٍ، وَصَامَ رَمَضَانَ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ یمن کے دو آدمی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے یہاں مہمان بنے، ان میں سے ایک صاحب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے، اور دوسرے صاحب ان کے بعد ایک سال مزید زندہ رہے اور بالآخر طبعی موت سے رخصت ہو گئے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اپنی طبعی موت مرنے والا اپنے دوسرے ساتھی سے کافی عرصہ قبل ہی جنت میں داخل ہو گیا ہے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ خواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”یہ دوسرا آدمی اپنے پہلے ساتھی کے بعد کتنا عرصہ تک زمین پر زندہ رہا؟“ انہوں نے بتایا کہ ایک سال تک، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس نے ایک ہزار آٹھ سو نمازیں پڑھیں اور ماہ رمضان کے روزے الگ رکھے۔“(آخر ان کا ثواب بھی تو ہوگا)۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، لأن أباسلمة لم يدرك القصة، ولم يسمع من طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا مالك ، عن عمه ، عن ابيه , انه سمع طلحة بن عبيد الله , يقول: جاء اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال" خمس صلوات في يوم وليلة" , قال: هل علي غيرهن؟ قال:" لا" , وساله عن الصوم، فقال:" صيام رمضان" , قال: هل علي غيره؟ قال:" لا" , قال: وذكر الزكاة، قال: هل علي غيرها؟ قال:" لا" , قال: والله لا ازيد عليهن، ولا انقص منهن , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد افلح إن صدق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ" , قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ:" لَا" , وَسَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ:" صِيَامُ رَمَضَانَ" , قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: وَذَكَرَ الزَّكَاةَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ فرمایا: ”دن رات میں پانچ نمازیں“، اس نے پوچھا کہ ان کے علاوہ بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ فرمایا: ”نہیں۔“ پھر اس نے روزہ کی بابت پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ ”ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں“، اس نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی روزے فرض ہیں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ پھر زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا اور اس نے پھر یہی پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی چیز فرض ہے؟ فرمایا: ”نہیں۔“ اس پر اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان چیزوں میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کروں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ سچ کہہ رہا ہے اور اس نے اس بات کو سچ کر دکھایا تو یہ کامیاب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس , سمعت عمر رضي الله عنه , يقول: لعبد الرحمن , وطلحة , والزبير , وسعد , نشدتكم بالله الذي تقوم به السماء والارض , وقال سفيان مرة: الذي بإذنه تقوم , اعلمتم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إنا لا نورث، ما تركنا صدقة"؟ قالوا: اللهم نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ , سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: لعبد الرحمن , وَطَلْحَةَ , وَالزُّبَيْرِ , وَسَعْدٍ , نشدتكم بالله الذي تقوم به السماء والأرض , وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ , أَعَلِمْتُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3094، م : 1757 بدون ذكر طلحة
عبدالرحمن بن عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، ہم لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا، تھوڑی دیر بعد کوئی شخص ان کی خدمت میں ایک پرندہ بطور ہدیہ کے لایا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت سو رہے تھے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے اسے کھا لیا اور کچھ لوگوں نے اجتناب کیا، جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی تصویب فرمائی جنہوں نے اسے کھا لیا تھا، اور فرمایا کہ ہم نے بھی حالت احرام میں دوسرے کا شکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھا لیا تھا۔
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا گیا کہ نمازی کس چیز کو سترہ بنائے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو بنا لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز , وعفان , قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن موسى بن طلحة عن ابيه ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قوم في رؤوس النخل، فقال:" ما يصنع هؤلاء؟" , قالوا: يلقحونه، يجعلون الذكر في الانثى , قال:" ما اظن ذلك يغني شيئا" , فاخبروا بذلك فتركوه، فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن كان ينفعهم فليصنعوه، فإني إنما ظننت ظنا، فلا تؤاخذوني بالظن، ولكن إذا اخبرتكم عن الله عز وجل بشيء فخذوه، فإني لن اكذب على الله شيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ فِي رُؤُوسِ النَّخْلِ، فَقَالَ:" مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟" , قَالُوا: يُلَقِّحُونَهُ، يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الْأُنْثَى , قَالَ:" مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا" , فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا، فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ، وَلَكِنْ إِذَا أَخْبَرْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ فَخُذُوهُ، فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ شَيْئًا".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملا رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو۔“ ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ ”اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کر لینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے، اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو، کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا مجمع بن يحيى الانصاري ، حدثنا عثمان بن موهب ، عن موسى بن طلحة , عن ابيه ، قال: قلت: يا رسول الله، كيف الصلاة عليك؟ قال:" قل اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، إنك حميد مجيد، وبارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَحْيَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَوْهَبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:" قُلْ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ پر درود کس طرح پڑھا جائے؟ فرمایا: ”یوں کہا کرو: «اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح درود نازل فرما جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح برکتوں کا نزول فرما جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کیا، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللّٰهُ»”اے اللہ! اس چاند کو ہم پر برکت اور ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما، اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لشواهده، وهذا إسناد ضعيف، سليمان ضعيف و بلال لين
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کجاوے کے پچھلے حصے کی مانند کسی بھی چیز کو سترہ بنا لے پھر نماز پڑھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا إسرائيل ، عن سماك ، انه سمع موسى بن طلحة يحدث , عن ابيه ، قال: مررت مع النبي صلى الله عليه وسلم في نخل المدينة، فراى اقواما في رؤوس النخل يلقحون النخل، فقال:" ما يصنع هؤلاء؟" , قال: ياخذون من الذكر، فيجعلونه في الانثى، يلقحون به , فقال:" ما اظن ذلك يغني شيئا" , فبلغهم، فتركوه، ونزلوا عنها، فلم تحمل تلك السنة شيئا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إنما هو ظن ظننته، إن كان يغني شيئا، فاصنعوا، فإنما انا بشر مثلكم، والظن يخطئ ويصيب، ولكن ما قلت لكم قال الله عز وجل، فلن اكذب على الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَخْلِ الْمَدِينَةِ، فَرَأَى أَقْوَامًا فِي رؤُُُُُُوسِ النَّخْلِ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ:" مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟" , قَالَ: يَأْخُذُونَ مِنَ الذَّكَرِ، فيجعَلُونهَ فِي الْأُنْثَى، يُلَقِّحُونَ بِهِ , فَقَالَ:" مَا أَظُنُّ ذَلِكَ يُغْنِي شَيْئًا" , فَبَلَغَهُمْ، فَتَرَكُوهُ، وَنَزَلُوا عَنْهَا، فَلَمْ تَحْمِلْ تِلْكَ السَّنَةَ شَيْئًا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هُوَ ظَنٌّ ظَنَنْتُهُ، إِنْ كَانَ يُغْنِي شَيْئًا، فَاصْنَعُوا، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، وَالظَّنُّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ، وَلَكِنْ مَا قُلْتُ لَكُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ.
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر کچھ لوگوں کے پاس سے ہوا جو کھجوروں کے باغات میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ نر کھجور کو مادہ کھجور میں ملا رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرا خیال نہیں ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو۔“ ان لوگوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس سال یہ عمل نہیں کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو فرمایا کہ ”اگر انہیں اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہو تو انہیں یہ کام کر لینا چاہئے، میں نے تو صرف ایک گمان اور خیال ظاہر کیا ہے، اس لئے میرے گمان پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، ہاں! البتہ جب میں تمہیں اللہ کے حوالے سے کوئی بات بتاؤں تو تم اس پر عمل کرو، کیونکہ میں اللہ پر کسی صورت جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني طلحة بن يحيى بن طلحة ، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة ، عن عبد الله بن شداد , ان نفرا من بني عذرة ثلاثة اتوا النبي صلى الله عليه وسلم فاسلموا، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من يكفنيهم؟" , قال طلحة: انا , قال: فكانوا عند طلحة، فبعث النبي صلى الله عليه وسلم بعثا، فخرج احدهم فاستشهد، قال: ثم بعث بعثا، فخرج فيه آخر فاستشهد، قال: ثم مات الثالث على فراشه , قال طلحة : فرايت هؤلاء الثلاثة الذين كانوا عندي في الجنة، فرايت الميت على فراشه امامهم، ورايت الذي استشهد اخيرا يليه، ورايت الذي استشهد اولهم آخرهم، قال: فدخلني من ذلك، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وما انكرت من ذلك؟ ليس احد افضل عند الله من مؤمن يعمر في الإسلام لتسبيحه وتكبيره وتهليله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ , أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي عُذْرَةَ ثَلَاثَةً أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمُوا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَكْفِنِيهِمْ؟" , قَالَ طَلْحَةُ: أَنَا , قَالَ: فَكَانُوا عِنْدَ طَلْحَةَ، فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، فَخَرَجَ أَحَدُهُمْ فَاسْتُشْهِدَ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ بَعْثًا، فَخَرَجَ فِيهِ آخَرُ فَاسْتُشْهِدَ، قَالَ: ثُمَّ مَاتَ الثَّالِثُ عَلَى فِرَاشِهِ , قَالَ طَلْحَةُ : فَرَأَيْتُ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةَ الَّذِينَ كَانُوا عِنْدِي فِي الْجَنَّةِ، فَرَأَيْتُ الْمَيِّتَ عَلَى فِرَاشِهِ أَمَامَهُمْ، وَرَأَيْتُ الَّذِي اسْتُشْهِدَ أَخِيرًا يَلِيهِ، وَرَأَيْتُ الَّذِي اسْتُشْهِدَ أَوَّلَهُمْ آخِرَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلَنِي مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا أَنْكَرْتَ مِنْ ذَلِكَ؟ لَيْسَ أَحَدٌ أَفْضَلَ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَمَّرُ فِي الْإِسْلَامِ لِتَسْبِيحِهِ وَتَكْبِيرِهِ وَتَهْلِيلِه".
سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو عذرہ کے تین آدمیوں کی ایک جماعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ”ان کی کفالت کون کرے گا؟“ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کر دیا، چنانچہ یہ لوگ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہتے رہے، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا تو ان میں سے بھی ایک آدمی اس میں شریک ہو گیا اور وہیں پر جام شہادت نوش کر لیا۔ کچھ عرصہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور لشکر روانہ فرمایا تو دوسرا آدمی بھی شریک ہو گیا اور اسی دوران وہ بھی شہید ہو گیا، جبکہ تیسرے شخص کا انتقال طبعی موت سے ہو گیا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ان تینوں کو - جو میرے پاس رہتے تھے - جنت میں دیکھا، ان میں سے جس کی موت طبعی ہوئی تھی وہ ان دونوں سے آگے تھا، بعد میں شہید ہونے والا دوسرے درجے پر تھا اور سب سے پہلے شہید ہونے والا سب سے آخر میں تھا، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تمہیں اس پر تعجب کیونکر ہوا؟ اللہ کی بارگاہ میں اس مومن سے افضل کوئی نہیں ہے جسے حالت اسلام میں لمبی عمر دی گئی ہو، اس کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل کی وجہ سے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لاضطراب طلحة بن يحيى بن طلحة فى إسناده، فمرة قال : عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، ومرة قال : عن إبراهيم مولي لنا، وهذا الأخير مجهول. وفي هذا الإسناد انقطاع، فإن عبدالله ابن شداد لم يسمع من النبى صلى الله عليه وسلم
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا الحارث بن عبيدة ، حدثني محمد بن عبد الرحمن بن مجبر ، عن ابيه ، عن جده , ان عثمان رضي الله عنه , اشرف على الذين حصروه، فسلم عليهم، فلم يردوا عليه، فقال عثمان رضي الله عنه: افي القوم طلحة؟ قال طلحة : نعم , قال: فإنا لله وإنا إليه راجعون، اسلم على قوم انت فيهم فلا يردون؟ قال: قد رددت , قال: ما هكذا الرد، اسمعك ولا تسمعني، يا طلحة، انشدك الله اسمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول" لا يحل دم المسلم إلا واحدة من ثلاث: ان يكفر بعد إيمانه، او يزني بعد إحصانه، او يقتل نفسا فيقتل بها" , قال: اللهم نعم , فكبر عثمان , فقال: والله ما انكرت الله منذ عرفته، ولا زنيت في جاهلية ولا إسلام، وقد تركته في الجاهلية تكرها، وفي الإسلام تعففا، وما قتلت نفسا يحل بها قتلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبِيدَةَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُجَبَّرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَشْرَفَ عَلَى الَّذِينَ حَصَرُوهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَيْهِ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَفِي الْقَوْمِ طَلْحَةُ؟ قَالَ طَلْحَةُ : نَعَمْ , قَالَ: فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، أُسَلِّمُ عَلَى قَوْمٍ أَنْتَ فِيهِمْ فَلَا يَرُدُّونَ؟ قَالَ: قَدْ رَدَدْتُ , قَالَ: مَا هَكَذَا الرَّدُّ، أُسْمِعُكَ وَلَا تُسْمِعُنِي، يَا طَلْحَةُ، أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ" لَا يُحِلُّ دَمَ الْمُسْلِمِ إِلَّا وَاحِدَةٌ مِنْ ثَلَاثٍ: أَنْ يَكْفُرَ بَعْدَ إِيمَانِهِ، أَوْ يَزْنِيَ بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ يَقْتُلَ نَفْسًا فَيُقْتَلَ بِهَا" , قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ , فَكَبَّرَ عُثْمَانُ , فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَنْكَرْتُ اللَّهَ مُنْذُ عَرَفْتُهُ، وَلَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَقَدْ تَرَكْتُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَكَرُّهًا، وَفِي الْإِسْلَامِ تَعَفُّفًا، وَمَا قَتَلْتُ نَفْسًا يَحِلُّ بِهَا قَتْلِي.
ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے بالا خانے سے ان لوگوں کو جھانک کر دیکھا جنہوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور انہیں سلام کیا، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا اس گروہ میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں؟ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! میں موجود ہوں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے «إِنَّا لِلّٰهِ» کہا اور فرمایا: میں ایسے گروہ کو سلام کر رہا ہوں جس میں آپ بھی موجود ہیں، پھر بھی سلام کا جواب نہیں دیتے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے جواب دیا ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اس طرح جواب دیا جاتا ہے کہ میری آواز تو آپ تک پہنچ رہی ہے لیکن آپ کی آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی۔ طلحہ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کسی مسلمان کا خون بہانا - ان تین وجوہات کے علاوہ - کسی وجہ سے بھی جائز نہیں، یا تو وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائے، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کا ارتکاب کرے، یا کسی کو قتل کرے اور بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے“؟ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کی تصدیق کی، جس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: واللہ! میں نے اللہ کو جب سے پہچانا ہے کبھی اس کا انکار نہیں کیا، اسی طرح میں نے زمانہ جاہلیت یا اسلام میں کبھی بدکاری نہیں کی، میں نے اس کام کو جاہلیت میں طبعی ناپسندیدگی کی وجہ سے چھوڑ رکھا تھا، اور اسلام میں اپنی عفت کی حفاظت کے لئے اس سے اپنا دامن بچائے رکھا، نیز میں نے کسی انسان کو بھی قتل نہیں کیا جس کے بدلے میں مجھے قتل کرنا حلال ہو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحارث ضعيف، و محمد بن عبد الرحمٰن ضعيف جداً
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر بن مضر ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , عن طلحة بن عبيد الله , ان رجلين قدما على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان إسلامهما جميعا، وكان احدهما اشد اجتهادا من صاحبه، فغزا المجتهد منهما، فاستشهد، ثم مكث الآخر بعده سنة، ثم توفي , قال طلحة: فرايت فيما يرى النائم كاني عند باب الجنة، إذا انا بهما وقد خرج خارج من الجنة، فاذن للذي توفي الآخر منهما، ثم خرج فاذن للذي استشهد، ثم رجعا إلي، فقالا لي: ارجع، فإنه لم يان لك بعد , فاصبح طلحة يحدث به الناس، فعجبوا لذلك، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من اي ذلك تعجبون؟" , قالوا: يا رسول الله، هذا كان اشد اجتهادا، ثم استشهد في سبيل الله، ودخل هذا الجنة قبله! فقال:" اليس قد مكث هذا بعده سنة؟" , قالوا: بلى ," وادرك رمضان فصامه؟" , قالوا: بلى , قال:" وصلى كذا وكذا سجدة في السنة؟" , قالوا: بلى , قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" فلما بينهما ابعد ما بين السماء والارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلَيْنِ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيعًا، وَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنْ صَاحِبِهِ، فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا، فَاسْتُشْهِدَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ , قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ كَأَنِّي عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، إِذَا أَنَا بِهِمَا وَقَدْ خَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الْآخِرَ مِنْهُمَا، ثُمَّ خَرَجَ فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ رَجَعَا إِلَيَّ، فَقَالَا لِي: ارْجِعْ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ , فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ، فَعَجِبُوا لِذَلِكَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ؟" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا كَانَ أَشَدَّ اجْتِهَادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدَخَلَ هَذَا الْجَنَّةَ قَبْلَهُ! فَقَالَ:" أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً؟" , قَالُوا: بَلَى ," وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَهُ؟" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ:" وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا سَجْدَةً فِي السَّنَةِ؟" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَي الله عليه وَسَلَم:" فَلَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ".
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں نے اکٹھے ہی اسلام قبول کیا، ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے مقابلے میں بہت محنت کرتا تھا، یہ شخص جو بہت محنت کرتا تھا ایک غزوہ میں شریک ہو کر شہید ہو گیا، دوسرا شخص اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، پھر طبعی وفات سے انتقال کر گیا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت کے دروازے کے قریب ہوں، اچانک وہ دونوں مجھے دکھائی دیتے ہیں، جنت سے ایک آدمی باہر نکلتا ہے اور بعد میں فوت ہونے والے کو اندر داخل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے، تھوری دیر بعد باہر آکر وہ شہید ہونے والے کو بھی اجازت دے دیتا ہے، پھر وہ دونوں میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ ابھی واپس چلے جائیں ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ جب صبح ہوئی اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے یہ خواب ذکر کیا تو لوگوں کو بہت تعجب ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ شخص زیادہ محنت کرتا تھا، پھر اللہ کے راستہ میں شہید بھی ہوا، اس کے باوجود دوسرا آدمی جنت میں پہلے داخل ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ اس کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا تھا؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر فرمایا: ”کیا اس نے رمضان کا مہینہ پا کر اس کے روزے نہیں رکھے تھے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، پھر فرمایا: ”کیا اس نے سال میں اتنے سجدے نہیں کئے؟“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، اس پر فرمایا کہ ”اسی وجہ سے تو ان دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، لأن أبا سلمة لم يدرك القصة ولم يسمع من طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا سالم بن ابي امية ابو النضر ، قال: جلس إلي شيخ من بني تميم في مسجد البصرة، ومعه صحيفة له في يده، قال: وفي زمان الحجاج، فقال لي: يا عبد الله، اترى هذا الكتاب مغنيا عني شيئا عند هذا السلطان؟ قال: فقلت: وما هذا الكتاب؟ قال: هذا كتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتبه لنا ان لا يتعدى علينا في صدقاتنا , قال: فقلت: لا والله ما اظن ان يغني عنك شيئا، وكيف كان شان هذا الكتاب؟ قال: قدمت المدينة مع ابي، وانا غلام شاب، بإبل لنا نبيعها، وكان ابي صديقا لطلحة بن عبيد الله التيمي، فنزلنا عليه، فقال له ابي: اخرج معي، فبع لي إبلي هذه , قال: فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى ان يبيع حاضر لباد، ولكن ساخرج معك فاجلس، وتعرض إبلك، فإذا رضيت من رجل وفاء وصدقا ممن ساومك، امرتك ببيعه , قال: فخرجنا إلى السوق، فوقفنا ظهرنا، وجلس طلحة قريبا، فساومنا الرجال، حتى إذا اعطانا رجل ما نرضى , قال له ابي: ابايعه؟ قال: نعم، قد رضيت لكم وفاءه فبايعوه , فبايعناه، فلما قبضنا ما لنا، وفرغنا من حاجتنا، قال ابي لطلحة : خذ لنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا ان لا يتعدى علينا في صدقاتنا , قال: فقال: هذا لكم، ولكل مسلم , قال: على ذلك، إني احب ان يكون عندي من رسول الله صلى الله عليه وسلم كتاب , قال: فخرج حتى جاء بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن هذا الرجل من اهل البادية صديق لنا، وقد احب ان تكتب له كتابا لا يتعدى عليه في صدقته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا له ولكل مسلم" , قال: يا رسول الله، إنه قد احب ان يكون عندي منك كتاب على ذلك , قال: فكتب لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الكتاب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: جَلَسَ إِلَيَّ شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فِي مَسْجِدِ الْبَصْرَةِ، وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ لَهُ فِي يَدِهِ، قَالَ: وَفِي زَمَانِ الْحَجَّاجِ، فَقَالَ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَرَى هَذَا الْكِتَابَ مُغْنِيًا عَنِّي شَيْئًا عِنْدَ هَذَا السُّلْطَانِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا الْكِتَابُ؟ قَالَ: هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَهُ لَنَا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا , قَالَ: فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ أَنْ يُغْنِيَ عَنْكَ شَيْئًا، وَكَيْفَ كَانَ شَأْنُ هَذَا الْكِتَابِ؟ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ مَعَ أَبِي، وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ، بِإِبِلٍ لَنَا نَبِيعُهَا، وَكَانَ أَبِي صَدِيقًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ التَّيْمِيِّ، فَنَزَلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: اخْرُجْ مَعِي، فَبِعْ لِي إِبِلِي هَذِهِ , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَكِنْ سَأَخْرُجُ مَعَكَ فَأَجْلِسُ، وَتَعْرِضُ إِبِلَكَ، فَإِذَا رَضِيتُ مِنْ رَجُلٍ وَفَاءً وَصِدْقًا مِمَّنْ سَاوَمَكَ، أَمَرْتُكَ بِبَيْعِهِ , قَالَ: فَخَرَجْنَا إِلَى السُّوقِ، فَوَقَفْنَا ظُهْرَنَا، وَجَلَسَ طَلْحَةُ قَرِيبًا، فَسَاوَمَنَا الرِّجَالُ، حَتَّى إِذَا أَعْطَانَا رَجُلٌ مَا نَرْضَى , قَالَ لَهُ أَبِي: أُبَايِعُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قد رَضِيتُ لَكُمْ وَفَاءَهُ فَبَايِعُوهُ , فَبَايَعْنَاهُ، فَلَمَّا قَبَضْنَا مَا لَنَا، وَفَرَغْنَا مِنْ حَاجَتِنَا، قَالَ أَبِي لِطَلْحَةَ : خُذْ لَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَنْ لَا يُتَعَدَّى عَلَيْنَا فِي صَدَقَاتِنَا , قَالَ: فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ , قَالَ: عَلَى ذَلِكَ، إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابٌ , قَال: فَخَرَجَ حَتَّى جَاءَ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ صَدِيقٌ لَنَا، وَقَدْ أَحَبَّ أَنْ تَكْتُبَ لَهُ كِتَابًا لَا يُتَعَدَّى عَلَيْهِ فِي صَدَقَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا لَهُ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّه قَدْ أُحِبُّ أَنْ يَكُونَ عِنْدِي مِنْكَ كِتَابٌ عَلَى ذَلِكَ , قَالَ: فَكَتَبَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْكِتَابَ.
ابوالنضر کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بصرہ کی ایک مسجد میں بنو تمیم کے ایک بزرگ میرے پاس آکر بیٹھ گئے، ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ بھی تھا، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اے اللہ کے بندے! تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خط اس بادشاہ کے سامنے مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ میں نے پوچھا کہ یہ خط کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے لکھوایا تھا کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، میں نے کہا کہ واللہ! مجھے تو نہیں لگتا کہ اس خط سے آپ کو کوئی فائدہ ہو سکے گا (کیونکہ حجاج بہت ظالم ہے)، البتہ یہ بتائیے کہ اس خط کا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے والد کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، اس وقت میں نوجوان تھا، ہم لوگ اپنا ایک اونٹ فروخت کرنا چاہتے تھے، میرے والد سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے دوست تھے، اس لئے ہم انہی کے یہاں جا کر ٹھہرے۔ میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ چل کر اس اونٹ کو بیچنے میں میری مدد کیجئے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے خرید و فروخت کرے، البتہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا، آپ اپنا اونٹ لوگوں کے سامنے پیش کریں، جس شخص کے متعلق مجھے یہ اطمینان ہوگا کہ یہ قیمت ادا کر دے گا اور سچا ثابت ہوگا، میں آپ کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کا کہہ دوں گا۔ چنانچہ ہم نکل کر بازار میں پہنچے اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ قریب ہی بیٹھ گئے، کئی لوگوں نے آکر بھاؤ تاؤ کیا، حتی کہ ایک آدمی آیا جو ہماری منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار تھا، میرے والد صاحب نے ان سے پوچھا کہ اس کے ساتھ معاملہ کر لوں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، اور فرمایا کہ مجھے اطمینان ہے کہ یہ تمہاری قیمت پوری پوری ادا کر دے گا، اس لئے تم یہ اونٹ اس کے ہاتھ فروخت کر دو، چنانچہ ہم نے اس کے ہاتھ وہ اونٹ فروخت کر دیا۔ جب ہمارے قبضے میں پیسے آگئے اور ہماری ضرورت پوری ہو گئی تو میرے والد صاحب نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کا ایک خط لکھوا کر ہمیں دے دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے، اس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ تمہارے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں اسی وجہ سے چاہتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی خط میرے پاس ہونا چاہیے۔ بہرحال! سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ صاحب - جن کا تعلق ایک دیہات سے ہے - ہمارے دوست ہیں، ان کی خواہش ہے کہ آپ انہیں اس نوعیت کا ایک مضمون لکھوا دیں کہ زکوٰۃ کی وصولی میں ان پر زیادتی نہ کی جائے، فرمایا: ”یہ ان کے لئے بھی ہے اور ہر مسلمان کے لئے بھی۔“ میرے والد نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ کا کوئی خط اس مضمون پر مشتمل میرے پاس ہو، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خط لکھوا کر دیا تھا۔