كِتَابُ الْمَنَاقِبُ مناقب کا بیان سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت کا بیان
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنے رب کے ساتھ تین باتوں میں موافقت کی، ایک تو میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش کہ ہم مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّى﴾» (البقرۃ: 125) یعنی ”تم مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنالو۔“ دوسری بات یہ تھی، میں نے کہا: کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردا کرائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر اچھا اور برا آدمی آتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے پردے کی آیت نازل فرما دی: «﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ﴾» (الأحزاب: 53) یعنی ”جب تم ان سے کچھ سامان مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔“ تیسری بات یہ تھی، میں نے کہا: بدر کے قیدیوں کی گردنیں اڑا دو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشورہ لیا تو انہوں نے فدیہ لینے کا مشورہ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُوْنَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ﴾» (الانفال: 67) ”کسی نبی کے لیے مناسب نہیں کہ اس کے لیے قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں خون ریزی کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 402، 4483، 4790، 4916، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2399، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6896، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10931، 11354، 11547، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2959، 2960، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1891، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1009، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 215، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13634، وأحمد فى «مسنده» برقم: 159، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5896، 6203، والطبراني فى «الصغير» برقم: 868، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 41، والبزار فى «مسنده» برقم: 220، 221»
حكم: صحيح
|