سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
41. باب في النَّهْيِ عَنِ الصَّرْفِ:
بیع صرف کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2614
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان النصري، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "الذهب بالذهب هاء وهاء، والفضة بالفضة هاء وهاء، والتمر بالتمر هاء وهاء، والبر بالبر هاء وهاء، والشعير بالشعير هاء وهاء، ولا فضل بينهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قالَ: سمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَلَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: سونے کے بدلے سونا (بیچو تو) نقداً ہو (ادھار نہ ہو، اسی طرح) چاندی کے بدلے چاندی (کی بیع) نقداً ہو، اور کھجور کے بدلے کھجور نقداً ہو، اور گندم کے بدلے گندم نقداً ہو، جو کے بدلے جو بھی نقداً ہو اور ان (تمام اجناس) کے درمیان کمی بیشی نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2620]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2134]، [مسلم 1586]، [أبوداؤد 3348]، [ترمذي 1243]، [نسائي 4572]، [ابن ماجه 2253]، [أبويعلی 149]، [ابن حبان 5013]، [الحميدي 12]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2613)
«هَاءَ وَهَاءَ» کا مطلب ہے: بائع اور مشتری سامان اور قیمت کا تبادلہ اسی وقت کر لیں، یعنی یہ سودا دست بدستی اس ہاتھ سے لیں اس ہاتھ سے دیں، خریدار روپے دے اور تاجر مال ادا کر دے، اور کسی ایک جنس میں کمی یا بیشی نہ ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک جنس کی کوئی بھی چیز خرید و فروخت میں ایک مجلس میں نقداً نقد اگر ادا کی جائے اور اس میں کمی بیشی بھی نہ ہو تو یہ بیع صرف ہے، سونے و چاندی کو سونے چاندی کے عوض خرید و فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ ادھار نہ بیچی جائے اور کمی بیشی بھی نہ ہو، سونا اگر سونے کے بدلے خریدنا ہو تو ایک مجلس میں ایک ہی وزن کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں، اگر بائع سونا دے اور مشتری ادھار لے کر بعد میں قیمت ادا کرے، یا بائع دس گرام سونا دے اور مشتری 11 گرام ادا کرے تو یہ تفاضل ہے، اور یہ ہی سود ہے جو حرام ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں پانچ اجناس ذکر کی گئی ہیں، دیگر احادیث میں نمک کا بھی ذکر ہے، نیز یہ کہ دیگر روایات میں ہے کہ جس نے ان اجناس میں زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا یا لیا، اور لینے و دینے والا دونوں برابر ہوں۔
یہ کل چھ اجناس ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں کمی و زیادتی ربا اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے، سب علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان چھ چیزوں (سونا، چاندی، کھجور، گندم، جو، اور نمک) کے علاوہ اجناس میں اگر ایک چیز کی بیع و شراء ہو تو ادھار اور تفاضل جائز ہے یا نہیں، جیسے جوار، باجرہ، چاول، چنا وغیرہ۔
جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سود کی علت جہاں پائی جائے گی وہ بھی سود ہی ہوگا، اور اہلِ ظاہر و امام شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے سود کو انہیں چھ اجناس میں محصور مانا ہے، باقی دیگر اشیاء میں نہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2615
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، قال: قام اناس في إمارة معاوية يبيعون آنية الذهب والفضة إلى العطاء. فقام عبادة بن الصامت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم"نهى عن بيع الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والتمر بالتمر، والشعير بالشعير، والملح بالملح إلا مثلا بمثل سواء بسواء، فمن زاد او ازداد، فقد اربى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، قَالَ: قَامَ أنَاسٌ فِي إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ يَبِيعُونَ آنِيَةَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ إِلَى الْعَطَاءِ. فَقَامَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ، فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى".
ابواشعث صنعانی نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں لوگ سونے اور چاندی کے برتن تنخواہ ملنے کے وقت تک فروخت کرنے لگے (یعنی سونے یا چاندی کے برتن دراہم اور دنانیر سے ادھار کے طور پر خرید و فروخت کرنے لگے) تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے بیچنے سے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے عوض، کھجور کو کھجور کے بدلے، جو کو جو کے بدلے، نمک کو نمک کے بدلے بیچنے سے مگر برابر برابر اور نقداً نقداً پس جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو ربیٰ (سود) ہوگیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2621]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1587]، [مثله أبوداؤد 3350]، [ترمذي 1240]، [ابن ماجه 2254]، [ابن حبان 5015]، [مسند الحميدي 394]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2614)
«إِلَى الْعَطَاءِ» سے مقصود یہ ہے کہ جب صدقات میں سے حصہ ملے گا تو اس کی قیمت لے لیں گے، یعنی ادھار بیچنے کا حکم کیا، جیسے کہ مسلم شریف کی روایت میں بھی تصریح ہے۔
اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ مذکورہ چھ اجناس میں سے کوئی بھی ایک جنس خرید و فروخت میں ادھار یا کم و بیش نہ دی جائے نہ لی جائے ورنہ یہ ربا ہو جائے گا، اسی لئے جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے کے برتن دینار (جو سونے کا ہوتا تھا) کے عوض اور چاندی کے برتن درہم (جو چاندی کا ہوتا تھا) کے بدلے ادھار بیچنے کا حکم دیا کہ اس کی قیمت تنخواہ ملنے پر ادا کر دی جائے تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور بتایا کہ یہ حرام اور سود ہے، بلکہ مسلم شریف میں تفصیل ہے کہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے تو ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نہیں تو اور سخت الفاظ میں سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں یہ ضرور بیان کروں گا چاہے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پسند کریں یا نہ کریں، چاہے میرے ساتھ کیسا ہی برتاؤ کریں، اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہی درست تھا، ان کے نہ سننے سے یہ ضروری نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہی نہ ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.